افغانستان : سُپر پاورس کا قبرستان

برطانیہ کے پرچم یونین جیک کی بابت مشہور تھا کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرزمین افغانستان پر وہ جھنڈا طلوع ہی نہیں ہوسکا ۔ برطانوی سامراج سے عبرت پکڑنے کے بجائے 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ اس کے بعدچالیس برسوں سے یہ ملک حالتِ جنگ میں ہے۔ حالیہ امن معاہدے سے قبل 1988 میں ایسے ہی ایک معاہدے کے تحت سوویت یونین وہاں سے بے نیل و مرام لوٹا تھا اور اب امریکہ کی وہی حالت ہے۔ اس طرح افغانی مجاہدین اسلام نے یکے بعد دیگرے تین سپر پاورس کو زیر کرکے اپنی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے۔ سوویت تسلط کے بعد افغانستان اپنے ہمنواوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہوگیا۔ جس طرح اشتراکیوں نے جنرل داود کی مدد سے حکومت قائم کی اسی طرح امریکہ نے شمالی اتحاد کے احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم کو اپنا کٹھ پتلی بنایا لیکن سنہ 1995 میں اس خس و خاشاک کو صاف کرکے طالبان نے ملک پر ایک مضبوط اسلامی امارت( حکومت) قائم کردی ۔
طالبان ابھی اپنے قدم جما ہی رہے تھے کہ امریکہ میں 9/11 کا واقعہ پیش آگیا ۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنی کمزوری چھپانے کے لیے بلا ثبوت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پر اس کا الزام منڈھ دیا اور طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً بلا شرط اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کردے۔ افغان کے غیور رہنماوں نے اس دھونس دھمکی کو مسترد کرکے اپنی شرائط رکھ دیں۔ اول تو یہ کہ امریکہ اپنے دعویٰ کے حق میں شواہد پیش کرے بصورتِ دیگر کسی غیر جانبدار ملک میں مقدمہ چلایا جائے۔ اس کے علاوہ کسی صورت وہ اپنے مہمان کو دشمنوں کے حوالے نہیں کرسکتے۔ رعونت کے نشے میں دھُت امریکہ ناٹو کی فوج کو ساتھ لے کر افغانستان پہنچ گیا ۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں یہ بات نہیں تھی کہ ۲۰ سال بعدوہ طالبان سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوجائے گا ۔ 2001 میں طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے ہمنواوں تک کو غارت کرنے کا اعلان کردینے کی دھمکی دینے والی سُپر پاور نے طالبان کو امن کی امید بتاکر امن معاہدہ کرلیا۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ اس دوران طالبان کا تو نہ موقف بدلا اور اور نہ فرد تبدل ہوا لیکن امریکہ کا سب کچھ بدل گیا۔امریکہ کے ساتھ معاہدے پر اسی ملا عبدالغنی برادر نے دستخط فرمائے کہ جنہیں فروری 2010 میں بڑے طمطراق کے ساتھ کراچی سے گرفتاری کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا ۔امریکیوں کے مطابق افغان جنگ کے آغاز سے لیکر اُس وقت تک گرفتار ہونے والے سب سے بڑے طالبان رہنما ملا برادرتھے ۔اس گرفتاری کوقصر ابیض کے ترجمان نے بہت بڑی کا میابی قرار دیا تھا۔ نیو یارک ٹائمز نے بھی اس کی تصدیق کردی تھی لیکن طالبان کے ترجمان قاری محمد یوسف نےانکار کیا تھا۔ خیر حقیقت جو بھی رہی ہو ا امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط ثبت کرنے کے لیے تنظیم کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزاد نے اپنے اسی سیاسی امور کے نائب ملا عبدالغنی برادر کومنتخب کر کے ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ۔
افغان طالبان کے سابق امیر ملا عمر کے ساتھ ایک ہی مدرسے میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے والے ملا عبدالغنی برادر 1994 میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی قائدین میں سے ایک ہیں۔ طالبان کے دور حکومت میں انہیں ہرات صوبے کا گورنر اور فوج کا سربراہ بنایا گیاتھا ۔ کابل سے نکل کر قندھار جانے کے بعد وہاں سے جہاد اسلامی کی نگرانی کرنے کے علاوہ وہ مالی امور کی نگرانی بھی فرماتے ہیں ۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ کل جس شخص کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا تھا آج اس نے دو جانب کے ہزاروں قیدیوں کو رہا کیے جا نے والے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کی روُ سے جنگ بندی اورایک ضا بطۂ وقت (ٹائم ٹیبل) کے مطابق امریکی فوجوں کا انخلاء پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ افغان طالبان کا یہ بنیادی مطالبہ رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکالے لیکن اس پر راضی ہونے میں امریکہ نے بیس سال لگائے اور دنیا بھر کی رسوائی مول لی ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اب یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکی فوجیوں کے اپنے وطن واپس آنے کا وقت آگیا ہے ۔
یہ عجیب و غریب جمہوری نظام ہے کہ اس میں ایک صدر انتخاب جیتنے کے لیے فوج روانہ کرتا ہے اور دوسرا ہزاروں کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے بعد پھر سے انتخابی کامیابی کے لیے فوجی دستے واپس بلا لیتا ہے۔ اس وقت امریکی سکریٹری برائے دفاعی امور مارک ایسپر کا یہ بیان سب سے زیادہ اہم ہے کہ افغانستان میں ‘ہماری کارروائیوں کا اہم حصہ معطل کر دیا جائے گا ‘۔امریکی حکام یہ تسلیم کررہے ہیں کہ اب افغانستان کے اندران کی فوج کی ضرورت نہیں باقی رہے گی۔ امریکہ کے سیاسی مبصرین اس امن معاہدے کو افغانستان کا مسئلہ نہیں بلکہ امریکی انتخابی کامیابی کی سبیل بتارہے ہیں ۔ تجربہ کار امریکی دفاعی ماہر ٹونی کورڈیس مین امریکی انخلا کو ‘ویتنامائزیشن کے اعادہ قرار دے رہے ہیں یعنی 1950 کی دہائی میں ویتنام جنگ کو ختم کرنے کے بعد پیش آنے والی سیاسی مشکلا ت لوٹ آئیں گی۔
افغانستان کی یہ عظیم تبدیلی میٹھی میٹھی باتوں سے رونما نہیں ہوئی کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔وہ تو ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں اور ڈنڈے مارنے والوں کو ڈنڈے کھانے کے لیے بھی تیار رہنا پڑتا ہے ۔ بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑی ہے۔افغانستان میں بین الاقوامی اتحادی افواج کے سن 2001 سے اب تک تقریباً 3500 ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔ان میں سے 2300 سے زائد امریکی فوجی ہیں۔یہ سرکاری اعدادوشمار ذرائع ابلاغ میں شائع ہوے ہیں جبکہ اصلی تعداد یقیناً اس سے بہت زیادہ ہوگی ۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی فروری 2019 میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں اب تک 32 ہزار سے زیادہ افغان شہری ہلاک ہوچکے ہیں حالانکہ براؤن یونیورسٹی کی رپورٹ 58 ہزار حفاظتی دستوں اور42 ہزار مجاہدین کےہلاک ہونے کی بات کرتی ہے۔دیگر ذرائع ایک لاکھ شہریوں کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں لیکن اس سےافغان عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔بیس سال تک صبر و استقامت کے ساتھ جاری رہنے والےجہاد نے امریکی اور بین الاقوامی افواج کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔
امریکہ کو اپنی شکست کا احساس بہت پہلے ہوگیا تھا اس لیے اوبامہ نےجنوری 2012میں امن مذاکرات کے لیےسے دوحہ قطر میںطالبان کا دفتر کھلوایا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان دوسری نشست جون 2013میں ہوئی ۔ اس سے ناراض ہوکر افغان صدر حامد کرزئی نے امریکہ کے ساتھ سکیورٹی مذاکرات معطل کر دیئے لیکن امریکیوں کے نزدیک نہ تو کرزئی کی کوئی قدروقیمت تھی اور نہ اشرف غنی کی کوئی اہمیت ہے۔ امن مذاکرات کا تیسرامرحلہ جولائی 2015 میں پاکستان کے شہر مری میں طے ہوا۔ اس میں افغان حکومت کے نمائندگان اور افغان طالبان کے ساتھ پاکستان ثالث کے طور پر موجود تھا ۔ نومبر 2018میں افغانستان جنگ کے خاتمے کی خاطر قطرمیں جو بات چیت ہوئی اس میں امریکہ کی نمائندگی زلمے خلیل زاد کررہے تھے لیکن پھر اچانک ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب جیت جانے سے اس پیش رفت پر اندیشوں کے بادل چھا گئے۔
طالبان نے انجام سے بے نیاز ہوکر اپنا جہاد جاری رکھا ۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں افغانستان کے اندر 1443 عسکری جھڑپیں ہوئیں جن میں جملہ 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے حملوں سے ہوئیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے حملوں میں ہونے والے جانی نقصان میں سن 2013 سے 2018 تک کے کسی بھی سال کے مقابلے میں مذکورہ برس 21 فیصد جب کہ افغان سکیورٹی فورسز اور امریکی فوج کی کارروائیاں کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 18 فیصد بڑھی ہے۔ اس کا مطلب ہے دونوں جانب کی شدت میں اضافہ ہوا ۔ ممکن ہے کہ اس سے امن مذاکرات کی اہمیت ڈونلڈ ٹرمپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی اور دوبارہ بات چیت کا آغاز ہوا ہوگا۔
اگست (2019) میں جب دونوں فریق ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بہت قریب آگئے تھے لیکن اچانک امریکی صدر نے ستمبر میں امریکی فوجیوں پر حملے کا بہانہ بناکر مذاکرات روک دیئے۔ اس حرکت پر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نہایت پرسکون انداز میں کہا تھاکہ ’’ امریکی صدر کے ذریعہ اسلامی امارت کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی کا سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہوگا۔ اُن کے اعتبار کو ٹھیس لگےگی، اُن کا امن مخالف مؤقف دنیا کو نظر آئے گا اور اُن کے جان اور مال کا نقصان بھی زیادہ ہوگا۔‘ اس کے برعکس امریکی صدر نے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کابل حملے کے بعد منسوخ کیے گئے ہیں جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔انھوں نے مزید لکھا ’یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے قتل و غارتگری کرتے ہیں‘۔
اس بیان کو پڑھ کر ان لوگوں کو ہنسی آگئی ہوگی جو امریکی دہشت گردی کے پس پشت کارفرما وجوہات سے واقف ہیں۔ اس لیے کسی نے اس منسوخی پر توجہ نہیں دی جس کے بارے میں ٹرمپ نے کہا تھا

’’جھوٹے مفاد کے لیے طالبان نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ وہ مزید کتنی دہائیوں تک لڑنا چاہتے ہیں؟‘ ایک ماہ بعد ٹرمپ نے گفتگو شروع کروا کر تسلیم کرلیا کہ طالبان تو لڑنا چاہتے ہیں لیکن امریکیوں میں اب اس کی سکت باقی نہیں ہے اس لیے جنگ اسلحہ کے سہارے نہیں عزم و حوصلہ کی بنیاد پر لڑی جاتی ہے ۔ امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکاہے اور اس کی افغانستان میں ہمیشہ موجود رہنے کی گیڈر بھپکی اس معاہدے کےساتھ کافور ہو چکی ہے ۔ افغان جنگ کا امتیازی پہلو اس کا دشمن کے وسائل سے لڑا جانا ہے۔ افغانستان میں ناٹو فوجوں کی رسد پاکستان کی بندرگاہوں سے طالبان کے قبضے والے قندھار سے ہوکر جاتی تھی ۔ اس طرح امریکیوں سے وصول کی جانے والی راہداری سے اسلحہ خرید کر ان کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا ۔ اس طرح مشیت نے طالبان کی مدد کا ایک ایسا ذریعہ مہیا فرما دیا کہ بالآخر دشمن کو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا اور کامیابی و کامرانی طالبان کے قدم چوم لیے۔ارشادِ ربانی ہے ’’تم اپنی چال چلو اللہ اپنی تدبیر کرتا ہے۔ اللہ ہی بہترین توڑ کرنے والاہے‘‘

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *