معراج کا پیغام2020ء کی عالمی امت مسلمہ کے نام

اللہ کی زمین پر اللہ کے تابعداروں اور باغیوں و شیطان کے پیرؤوں کے درمیان حق و باطل کی کشمکش ازل تا ابد جاری رہے گی۔ موجودہ دور کے ملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں معراج نبویؐ کے عظیم تاریخی واقعہ کو بطور تذکیر یاد کیا جانا امت مسلمہ کے لئے امید افزاء اور حوصلہ افزا ثابت ہو سکتا ہے۔ حضور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا بعد از شرف نبوت کا تقریباً آخری پانچ سال کا زمانہ فإن مع العسر یسرا (بیشک ہر تنگی کے ساتھ آسانی اور فراخی ہے) کا بہترین نمونہ ہے۔ اگر آج کے انتہائی صبر آزما، تشویشناک آزمائشوں سے بھر پور ظلم و ستم سے معمور حالات میں ہم اُن پانچ اہم جدوجہد سے بھرے سالوں پر توجہ کریں تو ۷؍نبوی میں شعب ابی طالب کے محاصرہ اور مقاطعہ کے 3سالوں کے بعد 10نبوی کے عام الحزن (غم کے سال )میں حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد اسی سال دعوتِ دین کی خاطر طائف کا سفر اور وہاں پر پہنچائی گئی شدیداذیت و تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ ان سخت آزمائشوں کے بعد طائف کے سفر سے واپسی پر پہلی خوشخبری کے طور پر انسانوں کے انکار کے مقابلہ پر جنوں کے اقرار کا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کے بعد اللہ پاک کی طرف سے آپ کو معجزہ شق القمر کا انعام عطا فرمایا گیا جسے ہم سفر معراج کے نام سے جانتے ہیں۔
قرآن پاک میں جب یہ اصول بتایا گیا کہ رسولؐ کی زندگی میں تمہارے لئے نمونہ ہے (الاحزاب) تو امت مسلمہ پر لازم ہے کہ وہ ہر دور میں رسولؐ کی زندگی سے رہنمائی حاصل کرے اور جانے کہ شدائد، آزمائش، اذیت اور بربریت کے ماحول میں آپ کا کیا رویہ تھا؟ آپ کے اوپر حالات کا وقتی اور مستقل کیا اثر ہوتا تھا، آپ حالات سے کیسے مقابلہ کرتے تھے؛ آپ کے وفادار صحابہؓ کا رویہ اور کردار کیا ہوتا تھا؟ کیا ان کا رویہ جزع و فزع کا ہوتا تھا؛ مرثیہ یا گالی گلوچ کا ہوتا تھا؟ بے صبری اور جلدبازی کا ہوتا تھا؛ اصولوں پر مصالحت یا مداہنت کا ہوتا تھا؟
نبوت کے ساتویں سال جب ہر طرح کی اذیت ، دشنام طرازی، سازشی منصوبہ حضورؐ کے عزم و ارادہ کے سامنے ناکام ثابت ہوتے تو مشرکین مکہ خیف بنی کنانہ میں اکٹھا ہوئے اور فیصلہ لیا کہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا مکمل مقاطعہ کریں گے۔ اِس مدت میں کوئی بھی مشرک ان دونوں قبیلوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے کہ شادی ، نکاح نہیں کریں گے؛ ساتھ اٹھے بیٹھینگے نہیں ، نہ ان کے گھروں کو جائیں گے۔ اس معاہدہ کو لکھ کر خانۂ کعبہ میں لٹکا دیا گیا۔ حضرت ابوطالب کی سربراہی خاندان کے لوگوں کے ساتھ پہاڑی درّہ شعب ابوطالب میں مقیّد ہو گئے۔ خرید و فروخت نہ کرنے دینے سے کھانے کا سامان نہیں ملتا تھا۔ فاقہ کشی ہونے لگی۔ جنگلی پیڑوں کے پھل اور پتے کھانا پڑے۔ سوکھا چمڑہ ابال کر کھایا گیا۔ آنے جانے ، ملنے جلنے کی پابندی ہو گئی۔ بچے بھوک سے بلبلا اٹھے۔ ان کی تکلیف دیکھ کر دیکھنے والے دوہری تکلیف میں مبتلا ہوتے۔ اس طرح تین سال کا وقفہ گزر گیا۔ اللہ کی مدد آئی اور وہ معاہدہ اللہ کے حکم سے دیمک نے کھا لیا صرف اللہ پاک کا نام لکھا رہا۔ اتنی زبردست مسلسل آزمائش میں کس طرح اللہ پاک نے اِن اصحاب کو صبر و استقامت پر قائم رکھا اور یہ اصحاب اپنے عہد پر قائم رہے مگر رسولؐ کے دشمنوں کے سپرد نہیں کیا۔ یہ سارے لوگ اہل ایمان نہیں تھے ۔ کافی تعداد صرف قبیلائی عصبیت اور حمیت کی وجہ سے ایسا کر رہی تھی۔ دراصل یہ صبر و عزیمت کا رویہ ہی قیامت تک اہل ایمان کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ حق کو بغیر لاگ و لپیٹ کے ، بلا کسی خطرہ، نقصان، اندیشہ کی پرواہ کئے بغیر حق کی حفاظت، حق کا اظہار ، حق کی اشاعت کرتے رہنے سے اللہ کی مدد اہل ایمان کے لئے لازم ہو جاتی ہے۔ اللہ کا وعدہ پورا ہوتا ہے۔ قید و بند ، مقاطعہ (بائیکاٹ) ، بھوک پیاس کے باوجود حضورؐ اور اہل ایمان حرمت والے مہینوں ، خصوصاً ایام حج میں باہر آکر بیرونی وفود سے ملاقات کرتے اور ایمان کی دعوت دیتے تھے۔ معاہدہ ختم ہونے پر عبد المطلب اور بنو ہاشم اپنی آبادیوں میں آگئے مگر دیمک کے ذریعہ پورا متن معاہدہ کھانے اور اس کی غیبی اطلاع حضورؐ کو معجزانہ طور پر دئیے جانے کے بعد بھی ضدی اور ہٹ دھرم مشرکین انکار پر ہی جمے رہے۔
شعب ابی طالب سے آزاد ہوکر نبیؐ اور اصحاب نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد چچا حضرت ابو طالب کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی ۔ مشرکین نے حضرت ابو طالب کے پاس پچیس افراد کا وفد عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام، امیہ بن خلف، ابو سفیان بن حرب اور قریش کے دوسرے بڑے لوگوں کی سربراہی میں بھیجا۔ انہوں نے ان سے کہا ’’آپ کا ہمارے درمیان جو مرتبہ اور مقام ہے وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ہمیں ڈر ہے کہ یہ آپ کے آخری دن ہیں۔ ادھر آپ کے اور ہمارے بھتیجہ کے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے وہ آپ جانتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ انہیں بلائیں ، ہم اور وہ ایک دوسرے کو قول دیں کہ وہ ہم کو ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم اُن کو اُن کے دین پر چھوڑ دیں۔ حضورؐ نے جواب دیا کہ ’’میں تمہیں ایک ایسا کلمہ بتا رہا ہوں جسکے اگر آپ قائل ہو جائیں تو عرب کا بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے پیروں میں آجائے، تو آپ کی رائے کیا ہوگی؟‘‘ یہ بات سن کر وہ حیرت زدہ ہوکر کہنے لگے بتاؤ وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے کہا لا الٰہ الا اللہ کہو اور اللہ کے سوا جس کو پوجتے ہو اسے چھوڑ دو۔ انہوں نے بوکھلاکر ہاتھ پیٹ کر تالیاں بجاتے ہوئے کہا یہ ہم سے ہمارے تمام خدا چھڑوانا چاہتا ہے ۔ چلو اس کو چھوڑو اور اپنے خداؤں پر جم جاؤ۔ کچھ عرصہ میں چچا جان کا انتقال ہو گیا۔ یہ رجب ،۱۰ ؍نبوی کا واقعہ ہے۔ حضرت ابو طالب کے انتقال کےصرف تین دِن یا دو مہینہ بعد امّ المؤمنین حضرت خدیجہؓ بھی انتقال فرماگئیں۔ یہ ۱۰؍نبوی رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔ اس وقت آپؓکی عمر مبارک ۶۵ سال تھی اور حضورؐ کی عمر مبارک ۵۰ سال تھی۔ پے در پے صدمہ اور آزمائش کے ان واقعات کا حضورؐ پر بہت گہرا اثر ہوا۔ دنیا کے سب سے مضبوط ، قابل بھروسہ سہاروں کو بھی چھین کر اللہ نے صرف اپنے سہارے کر لیا۔ نہایت مایوسی و صدمہ اور افسوس کی حالت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جب حضورؐ نے اہل مکہ سے مایوس ہوکر مکہ سے سفر طائف کیا۔ جو مکہ سے ۱۳۰ کلو میٹر دور پر فضا اور خوشحال افراد کی بستی تھی۔
یہاں تھوڑا ٹھہر کر اگر ہم حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد کے تکلیف، ظلم ، طعن و تشنیع کے ماحول کو چشم تصور میں لا کر آج کے اسلام دشمن Islamophobiaکے بین الاقوامی ماحول، پروپیگنڈہ اور سازشوں و تشدد پر لاگو کریں تو کسی درجہ میں سمجھ میں آسکتا ہے کہ آپؐ نے کس عظیم صبر و ثبا ت کا مظاہرہ کرکے بے لاگ و لپیٹ مداہنت و سمجھوتہ کئے بغیر دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کیا۔ ایک دفعہ آپؐ راہ میں جا رہے تھے کہ کسی ظالم نے آپ کے سر پر خاک ڈال دی۔ آپ اسی حالت میں گھر آئے ۔ آپ کی صاحبزادی آپ کا سر مبارک دھوتی جاتی تھیں اور ابا حضور کی یہ صورت دیکھ کر روتی جاتی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا باپ کی جان ایسے نہ روؤ اللہ تیرے باپ کو یوں نہیں چھوڑے گا۔ انہیں ایام میں ایک مرتبہ آپ صحن کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ سردارانِ قریش حلقہ جمائے بیٹھے تھے۔ نماز پڑھتے دیکھ کر کہنے لگے کہ کوئی اونٹ کی اوجھڑی لاکر اس کی گردن پر رکھ دے۔ چنانچہ ایک بدبخت نے یہ حرکت کردی۔ اس بوجھ سے آپ کی پیٹھ دب گئی۔ کسی نے حضرت فاطمہؓ بنت رسولؐ کو خبر دی وہ آئیں اور کسی طرح اس گندگی کو آپ سے دور کیا۔ ایک دوسرے واقعہ میں ایک دوسرے بدبخت نے آپکی گردن میں پھندہ ڈالکر چاہا کہ آپ کا گلا گھونٹ دے۔ حضرت ابوبکرؓ نے دوڑ کر آپؐ کی جان بچائی اور اس بدبخت کو کہا ’’کیا ایک شخص کی جان صرف اس لئے لینا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا پروردگار اللہ ہے۔‘‘
آج اگر اسی نبی کے ماننے والوں کو اپنے ایمان کی وجہ سے دنیا بھر میں نفرت پر مبنی تشدد Hate Crimesکا سامنا ہے ؛ پبلک ٹرانسپورٹ میں بسوں اور میٹرو میں ان کو طعنہ دئیے جارہے ہیں؛ خواتین کے حجاب نوچے جارہے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں میں پریشان کیا جارہا ہے، مساجد پر حملہ کئے جارہے ہیں۔ ان سے بندوق کی نوک پر، لاٹھیوں کے زور پر مشرکانہ نعرہ لگوائے جارہے ہیں ، انہیں آگ میں ڈالکر جلایا جارہا ہے اور یہ سب مشرق و مغرب میں ہو رہا ہے اور مغرب میں بھی ہو رہا ہے۔ ایک بار ایسے صبر آزما حالات میں رسول کے نمونہ پر غور کرنا ہوگا ۔ انہیں کی طرف دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے اور ان کے ماننے والوں نے ایسے حالات میں کیا کیا تھا؟ کیا انہوں نے ایڈجسٹ کر لیا تھا؟ کیا انہوں نے دعوت و تبلیغ کا کام چھوڑ دیا تھا؟ کیا انہوں نے کچھ لو اور دو give and take کے اصولوں پرعمل کیا تھا؟ اس کا جواب طائف کے دعوتی سفر میں ملتا ہے۔ جب آپ نے زید بن حارثہؓ کو لیکر وہاں کے سرداروں کو دین کی دعوت دی تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ دعوت قبول نہیں کی بلکہ شہر کے اوباش آوارہ لڑکوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ آپ کے پیچھے ایک طرح کی ماب لنچنگ Moblynchingکرتے ہوئے شہر کے باہر تک آگئے اور رسول اللہ ؐ ایک باغ میں امان کی جگہ پاکر اپنے زخموں سے چور جسم کو آرام دینے لگے۔ آپ کے نعلین مبارک خون کی وجہ سے چپک گئے تھے۔ اس موقع پر اللہ کی مدد ظاہر ہوئی ، فرشتہ نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ حکم کریں تو ان کو دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس دیا جائے۔ ’’آپؐ نے فرمایا میں ان کے لئے کیوں بد دعا کروں، ہو سکتا ہے یہ ایمان نہ لائیں مگر ان کی آنے والی نسلیں ایمان لائیں گی۔‘‘ وہاں پر اللہ کے رسولؐ نے جو دعا کی ہے وہ یاد رکھے جانے اور حوصلہ پانے کے لئے کافی ہے۔آپؐ نے فرمایا: ’’اپنی قوت کی کمی اپنی بے سرو سامانی اور لوگوں کے مقابلہ اپنی بے بسی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں۔ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ درماندہ بیکسوں کا پروردگار تو ہی ہے۔ تو ہی میرا مالک ہے۔ تو مجھے کس کے حوالہ کرتا ہے کیا اس بیگانہ دشمن کے جو مجھ سے ترش روئی رکھتا ہے یا ایسے دشمن کے جو میرے معاملہ پر قابو رکھتا ہے۔ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ بس تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسعت رکھتی ہے۔ میں اس بات کے مقابلہ میں کہ تیرا غضب مجھ پر پڑے یا تیرا عذاب مجھ پر وارد ہو تیرے ہی نورِ جمال کی پناہ چاہتا ہوں۔ جس سے سارے اندھیرے روشن ہو جاتے ہیں۔ جن کے ذریعہ دین و دنیا کے تمام معاملات سنور جاتے ہیں۔ مجھے تیری خوشنودی اور رضامندی کی طلب ہے۔ بجز تیرے کہیں سے قوت اور طاقت نہیں مل سکتی۔ طائف کی مایوسی کے بعد قرن الثعلب میں جبرئیل اور فرشتہ جبال کی آمد کی شکل میں پہلا انعام غیبی اللہ کے رسولؐ کے لئے بہت بڑا وجہ سکون بنا۔ آپؐ مکہ کی طرف چلے، نخلہ کی گھاٹی میں ٹھہرے۔ یہاں آپ کچھ دن ٹھہرے رہے۔ ایک رات میں اللہ کا دوسرا انعام جنوں کے ٹولہ کے ذریعہ رسولؐ کی تلاوت قرآن سے متاثر ہوکر قبول اسلام کی شکل میں ملا۔ جسکا ذکر سورہ الاحقاف اور سورہ جن میں موجود ہے۔ ’’سورہ جن میں کہا گیا۔ ’’آپ کہہ دیں میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے یہ قرآن سنا جو سیدھی رہنمائی کرتا ہے ، ہم اس پر ایمان لے آئے۔ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کر سکتے۔ (سورۃ الجن) ‘‘ اللہ کے انعام کی اور تسلی اور ڈھارس کی یہ صورت بھی تھی کہ جس سال آپؐ کو حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ کا انتقال پر ملال ہوا اسی سال کے قریب آپ کے دو نکاح حضرت سودہ بنت زمعہؓ اور حضرت عائشہؓ سے ہوا۔ اگر ہم واقعات کی زمانی ترتیب کو دھیان میں رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش اور مدد و انعام ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ حضورؐ نے مکہ آکر آس پاس قبیلوں بنو عاسر، محارب، عنان، مرہ، حنیفہ، سلیم، بنو نصر، کندہ، بنو کلب، حارث بن کعب وغیرہ کو دعوت دین دی۔ ان میں سے اکثر نے دعوت پر لبیک نہیں کہا۔ مگر انفرادی طور پر قابل ذکر ہستیوں عقیل بن عمر دوسیؓ، حماد ازدیؓ، ابوذر غفاریؓ، نوید بن صامتؓ نے اسلام قبول فرمایا۔ ۱۰ یا ۱۱ نبوی میں اللہ کی مدد ایک معجزہ کی شکل میںآئی۔ جب عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق ہم حضورؐ کے ساتھ منیٰ میں تھے۔ حضورؐ نے کہا گواہ رہو چاند کا ایک ٹکڑا پھٹ کر جبل ابوقبیس کی طرف جا رہا ہے۔ یہ معجزہ بہت صاف تھا۔ اہل قریش نے اسے واضح طور پر بہت دیر تک دیکھا۔ آنکھیں رگڑ رگڑ کر دیکھا مگر ایمان نہیں لائے اور کہا کہ یہ چلتا ہوا جادو ہے اور سچ تو یہ ہے محمد ؐ نے ہماری آنکھوں پر جادو کر دیا ہے۔ مگر کیا وہ سارے لوگوں پر جادو کر سکتے ہیں۔ باہر سے آنے والوں کو آنے دو ان سے معلوم ہو جائے گا کہ کیا انہوں بھی اس کا مشاہدہ کیا ہے؟ باہر سے آنے والوں نے بھی تصدیق کی مگر بد قسمت پھر بھی ایمان نہیں لائے۔ اور اپنی انکار کی روش پر چلتے رہے۔ آزمائش اور انتقام کے ساتھ چلتے رہے۔ فان مع العسر یسرا کے اصول کے تحت طائف کو لبیک کہنے کی سعادت نہیں ملی تو ۱۱؍نبوی میں ہی یثرب کے اوس خزرج کے خوش قسمت افراد کو لبیک کہتے اور طلع البدر علینا من ثنیات الوداع کے نغمہ کی بنیاد ڈالنے کا شرف نصیب ہوا۔
طائف قریب تھا دور ہو گیا، یثرب دور تھا قریب ہو گیا۔ طائف کے امتحان کے بعد حضورﷺکو قرب الٰہی کا انتہائی مقام بلند عطا کیا گیا۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول کو اعزاز و انعام دینے کے لئے اپنے ذی وقار دربار میں مہمان کرنے کے لئے سفر معراج کا اہتمام کرایا۔ یہ سفر اب تک کے ابتلاء و آزمائش کے دور کے بعد اگلے دور نصرت و فتح کا پیش خیمہ تھا۔ جب نبیؐ کے سامنے غیب کے پردہ ہٹاکر غیب کو حاضر کر دیا گیا۔ اس سفر کا ذکر سورہ بنی اسرائیل یا سورہ اسریٰ میں ان الفاظ سے کیا گیا ’’ پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندہ کو رات کے کچھ حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔ جس کے گردوپیش کو ہم نے با برکت بنایا ہے۔ اس لئے کہ ہم انہیں اپنی قدرت کی بعض نشانیاں دکھائیں۔ یقیناً اللہ خوب جاننے والا اور سننے والا ہے۔ اس سورہ میں ایک طرح سے اس بات کے اعلان کی تیاری ہے کہ اب دنیا میں امامت کا تاج بنی اسرائیل سے چھین کر (ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ) امت محمدیہؐ کو پہنایا جا رہا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں اس طرح کی تعلیمات سے نوازا گیا ہے جن سے آگے کے منصوبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔
(۱) بنی اسرائیل کی داستان عبرت سامنے رکھ کر ایک طرف یہ واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے قوانین بڑی بڑی طاقتوں کا محاسبہ کرتے ہیں اور ان کی بے راہ روی پر ان کو کسی دوسرے کا آلہ کار بنوادیتے ہیں۔ دوسری طرف غیرت دلائی گئی ہے کہ غلبہ و کامرانی کے دور میں پہنچ کر کہیں یہ طاقت بھی بنی اسرائیل کی روش نہ اختیار کر لے۔ شاید اسی لئے قرآن پاک میں بکثرت قصۂ فرعون و موسیٰ و حالات بنی اسرائیل ذکر ہوئے ہیں۔ اور حدیث میں مسلمانوں کو خبردار بھی کیا گیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی روش پرنہ چلیں ۔
(۲) یہ خوشخبری صاف صاف الفاظ میں انتہائی سازگار حالات میں سنائی گئی کہ ’’حق آگیا اور باطل دم دباکر بھاگنے ہی والا ہے۔ اندھیرے چھٹ جائیں گے اور جلد ہی صبح نمودار ہوگی۔
(۳) یہ اطلاع دی گئی کہ اب اہل مکہ آپ کو مکہ سے نکال دینے کے در پہ ہوں گے۔ مگر آپ کو نکال کر زیادہ دنوں تک چین سے نہیں رہ سکیں گے۔ دعاء ہجرت ان الفاظ میں سکھائی گئی ’’اے میرے رب مجھے صدق کے دروازہ سے داخل کر اور موجودہ ماحول سے صدق کے راستہ سے ہی نکال اور مجھے اپنی بارگاہ سے اقتدار کی صورت میں مدد نصیب کر۔
(۴) آیت ۲۲ تا ۲۹ میں اسلامی نظام کے بالکل ابتدائی اصول عطا کئے گئے کہ اُن کو بنیاد بناکر نیا معاشرہ اور نیا تمدن استوار کیا جائے۔
(۵) جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے کھاتے پیتے لوگوں کو حکم دیتے ہیں ، پر وہ کھلی من مانی کرتے ہیں۔ مگر اس بستی پر (تباہی کا حکم) صحیح ثابت ہو جاتا ہے اور ہم اسے کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ (۱۶ـ:۱۷)
(۶) اور نوح ؑ کے بعد ہم نے کتنی ہی قوموں کو تباہ کر دیا۔ اور تمہارا رب اپنے بندوں کو جرائم کی خبر رکھنے اور دیکھنے کے لئے کافی ہے۔ (۱۷:۱۷ بنی اسرائیل)
سفر معراج کے بارے میں حدیث میں مذکور ہے ’’میں مکہ مکرمہ میں اپنے گھر (حضرت امّ ہانی ؓ) میں سویا ہوا تھا تو گھر کی چھت کو کھولا گیا ۔ حضرت جبرئیل ؑ نازل ہوئے ۔ مجھے خانہ کعبہ کے پاس حطیم میں لے آئے جہاں میں نے کچھ دیر آرام کیا۔ مجھ پر اونگھ طاری تھی اس درمیان کہنے والے نے کہا تین میں سے درمیان والے کو لے لو۔ پھر مجھے اٹھاکر زمزم کی طرف لے جایا گیا۔ وہاں سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا پھر میرا سینہ زیر ناف تک چیرا گیا اور میرا دل نکال کر زمزم کے پانی سے دھویا گیا پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر کر اس کی اصل جگہ لوٹا دیا گیا بعد ازاں میرا سینہ بند کر دیا گیا۔ پھر میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جسے براق کہا گیا۔ یہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا اس کا ایک قدم حد نگاہ تک جاتا تھا۔ مجھے اس پر بٹھایا گیا۔ پھر میں براق پر سوار ہوکر بیت المقدس پہونچ گیا۔ میں نے اتر کر سواری کو اسی جگہ باندھا جہاں گذشتہ انبیاء باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد کے اندر چلا گیا اس میں دو رکعت نماز ادا کی۔ انبیاء کی بھی امامت کی۔ پھر میں مسجد اقصیٰ سے باہر آیا تو حضرت جبرئیل ؑ نے مجھے دو برتن پیش کئے ایک میں شراب دوسرے میں دودھ تھا۔ میں نے دودھ کو پسند کیا تو جبرئیل ؑ نے کہا ’’آپ نے فطرت کو پسند کیا۔ پھر میں اور جبرئیل چل پڑے یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ گئے۔ اسی کے بعد مختلف آسمانوں پر حضرت آدمؑ ، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ ، حضرت یوسف ؑ، حضرت ادریس ؑ، حضرت ہارون ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی۔ سب نے آپ کو مرحبا کہا اور آپ کی نبوت کا اقرار کیا۔ اس کے بعد سدرۃ المنتہیٰ تک لیجائے گئے اور وہاں بیت المعمور کو اونچا کیا گیا۔ اور آپﷺ کو جنت میں داخل کیا گیا۔ اور زیادہ بلندی پر لے جایا گیا جہاں قلم چلنے کی سرسراہٹ کی آواز آرہی تھی۔
پھر اللہ پاک کے دربار میں محبوب کی حاضری ہو گئی۔ وہاں وہ اللہ پاک کے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم دوری رہ گئی۔ اس وقت اللہ نے اپنے بندہ پر وحی کے ذریعہ پچاس وقت کی نماز عطا فرمائی۔ جسے حضرت موسیٰ ؑ کی فرمائش پر کم کرواکر پانچ وقت کرایا گیا اس کے علاوہ آپ نے جنت، جہنم کو بھی دیکھا۔ مختلف جرائم کرنے والوں کی سزاؤں کو بھی دیکھا ۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ کو تین چیزیں عطا کی گئیں۔ (۱) پانچ نمازیں۔ (۲) سورہ البقرہ کی آخری آیات (۳) آپ کی امت کے ہر اس فرد کے بڑے گناہ معاف کردئیے گئے جو شرک نہ کرتا ہو۔
آخری نہایت سبق آموز واقعہ سفر معراج میں حضورؐ کے الفاظ میں یوں ہے کہ مجھے عمدہ خوشبو محسوس ہوئی میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ عمدہ خوشبو کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی خاتون اور اس کے بچوں کی خوشبو ہے۔ میں نے پوچھا اس کا قصہ کیا ہے؟ جبرئیل ؑ نے بتایا بنت فرعون کی کنگھی کرنے والی خاتون نے گری ہوئی کنگھی اٹھاتے وقت بسم اللہ کہا۔ بنت فرعون نے پوچھا اللہ کون میرا باپ؟ انہوں نے جواب دیا اللہ وہ ہے جو تیرے باپ کا بھی رب ہے۔ بنت فرعون نے فرعون کو بتایا ۔ فرعون نے پوچھا میرے علاوہ بھی تیرا کوئی رب ہے؟ انہوں نے جواب دیا اللہ ہی میرا اور تیرا رب ہے۔ اس نے کہا ایک تانبے کی کڑھائی میں تیل ڈال کر اس کو اور اس کے بچوں کو ابلتے ہوئے تیل میں ڈالو۔ پہلے اس کے بچوں کو ڈالو۔ دودھ پیتے بچہ کی باری آئی تو ماں کو کچھ لغزش ہوئی ، دودھ پیتے بچے نے کہا ’’ماں جہنم کا عذاب دنیا کے عذاب سے بڑا ہے۔‘‘ آپ کڑھائے میں کود جائیں، سب کی لاشوں کو اکٹھا کرکے ایک ساتھ دفن کر دیا گیا۔ یہ خوشبو اس خاتون اور اس کے بچوں کی ہے۔
اللہ پاک قربانی کو پسند کرتے ہیں اس کی بے پایاں ،بے حد و حساب عزت و تکریم فرماتے ہیں۔ جس طرح ایک معمولی کنیز نے قربانی دی اسی طرح اللہ نے اسے ابدی اعزاز عطا کیا کہ نبی آخری الزماں بھی اس کی خوشبو کو محسوس کئے بغیر نہ رہ سکے۔ دنیا میں کروڑوں اہل اللہ آئے اور گئے ان کے مراتب اور فضائل اپنی جگہ مگر ایک کنیز کا رتبہ اتنا بلند کیوں کیا گیا؟ بوقت آزمائش جان و اولاد کی بہ رضاء و رغبت قربانی۔۔۔۔
آج ظلم کے خلاف آزمائش میں امت مسلمہ کو صبر و استقامت، ایثار و قربانی کا وہی اسوہ اپنانا ہوگا جس کا نمونہ شعب ابی طالب ، مکہ کے بازاروں، طائف کی گلیوں اور فرعون کے دربار میں پیش کیا گیا۔
(استفادہ: الرحیق المختوم، محسن انسانیت، محمد عربیؐ، زاد الخطیب، النبی الخاتم)

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *