یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا

اکیسویں صدی میں ظالم اور جابر حکومتوں کے خلاف تیز تند آندھی کی طرح تحریکیں اٹھیں جن سے حکومتوں کے خیمے اکھڑ گئے، بہت پہلے ایران میں اور پھربعد میں عرب ملکوں میں ، تیونس میں ،مصر میں ، شام میں ، لیبیا میں عوام و خواص جابر حکومتوں کے خلاف انقلاب بردوش بن کر اٹھے اور انہوں زمین میں زلزلہ ڈال دیا اور حکومتوں کا تختہ الٹ دیا ، کہیں یہ انقلاب کامیاب ہوا اور کہیں دنیا کی بڑی طاقتوں کی سازش سے اور خلیجی ملکوں کی کوشش سے ناکام ہوگیا ۔جو منظر عرب ممالک میں چند سال پہلے دیکھنے میں آیا تھا وہی منظر اب ہندوستان میں دیکھنے میں آرہا ہے، مصر کے میدان التحریر کی طرح ہندوستان کا ہر میدان میدان تحریر بن گیا ہے ہندوستان کے طول وعرض میں پرجوش احتجاجات کی لہر اٹھ رہی ہے ، عصری جامعات کے طلبہ اور خواتین کا اس میں قائدانہ رول ہے ،ان کے پیدا کردہ زلزلہ سے زمین ہل رہی ہے اور ان کے غلغلہ سے گنبد مینار گونج رہا ہے ۔ حدیث نبوی کی روشنی میں انسان کو نہ تو ظالم ہونا چاہئے اور نہ مظلوم، ظلم کا مقابلہ کرنا ایک دینی قدر ہے اور جو نوجوان حکومت کے ظلم کو روکنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں وہ قابل قدر ہیں اور ان کی ہمت کی داد دینی چاہئے کہ سخت سردی کے موسم میں ، برفبار ہواوں میں، تمام برادران وطن کے ساتھ مل کر ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری آئین کی حفاظت کے لئے او ر تکثیری سماج کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔اگر اس وقت مزاحمت نہ کی گئی تو اس ملک میں اقلیتوں کو لوح ایام سے مٹا دیا جائے گا ۔ پھر نہ مسجدیں رہیں گی نہ چرچ نہ اقلیتوںکی عبادت گاہیںاور نہ مدرسوں کا وجود باقی رہے گا ۔موب لینچنگ ، جے شری رام کے نعرے ، سوریہ نمسکار ، تین طلاق کا قانون ،دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی ، بابری مسجد اور اب شہریت کے قانون میں ترمیم کا ایکٹ آیا ہے جس سے تمام اقلیتوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ، یہ سلسلہ دراز سے دراز تک ہوتاجارہا ہے ،اگر ظلم کے خلاف پوری طاقت سے عوام نہیں کھڑے ہوں گے تو اس ملک کو اسپین اور ہندو راِشٹر بنانے کا آر ایس ایس کا خواب پورا ہوجائے گا ۔ اس تحریک احتجاج میں تمام مذہب وملت کے لوگوںکو ساتھ لینا بے حد ضروری ہے ۔ تاکہ یہ تحریک طاقتور ہو ،گوہر مقصود حاصل ہو اور یہ سفینہ ساحل مراد تک پہنچ سکے ۔ ایک مقولہ یا نعرہ ہے جومصر کی آزادی کی تحریک میںعیسائبوں اور مسلمانوںدونوں کوساتھ لینے کے لئے وہاں کے مقبول اور ہر دلعزیزلیڈر سعد زغلول نے لگایا تھا الدین للہ والوطن للجمع یعنی دین اللہ کا ہے اور وطن سب کا ہے ۔ یہ نعرہ اس مفہوم میں تو غلط ہے کہ دین کا سیاست سے اور ملک کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس مفہوم میں درست ہے کہ دین اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری کا نام ہے اور حقوق وطنیت میں جو لوگ شریک ہیں ان کے مشترک فائدے کے لئے وطن کی حفاظت کے لئے باہمی اشتراک و تعاون سے کام کیا جانا وطن کا تقاضہ ہے اور یہ دین کے خلاف نہیں۔
ہندوستان میںخلافت اور ترک موالات کی تحریک کے زمانہ میں جس طرح ہر ملت ومذہب کے لوگ شانہ بشانہ شریک تھے اس طرح موجودہ احتجاجات کے مد وجزاور تلاطم میں ہر مذہب کے لوگ شریک ہیں اور ان احتجاجات کی باہمی اصل قوت اسی اتحادو اتفاق میں پنہاں ہے ،وہ حکومت جو فرقہ ورانہ خطوط پر ملک کو تقسیم کرنا چاہتی ہے اس احتجاج کو بھی صرف مسلمانون کا احتجاج ثابت کرنا چاہتی ہے اور کہتی ہے کہ’’ کون احتجاج کررہاہے اس کا پتہ احتجاج کرنے والوں کے کپڑوں سے لگایا جاسکتا ہے ۔‘‘دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ فرقہ ورانہ خطوط پر اس تحریک کو ہرگز نہ چلایا جائے اس میں تمام انصاف پسند اور سیکولر ذہن کے لوگوں کو اپنا ہم نوااور ہم سفر، ہمساز اور ہم آواز بنایا جائے ،ایسے نعروں سے گریز کیا جائے جن سے کوئی یہ ثابت کرے کہ یہ احتجاج دیش کے خلاف ہے یا جن سے یہ شبہ ہو کہ یہ صرف مسلمانوں کا احتجاج ہے اورصرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے ۔جو نوجوان طلبہ خالص مذہبی نعرے لگائیں گے وہ برادران وطن کو نفسیاتی اور ذہنی طور پر دور کریں گے اور اس حکومت کوطاقت بخشیں گے جو یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ’’ شہریت کے ان قوانین کی مخالفت صرف مسلمانوں کی طرف سے ہورہی ہے اور مسلمان شروع سے دیش ورودھی رہے ہیں ‘‘ سیرت طیبہ میںمسلمانوں کو حلف الفضول سے آسانی سے دلیل مل سکتی ہے جب رسول اکرم نے نبوت سے پہلے اس معاہدہ میں شرکت کی تھی جو ظلم اور حق تلفی کے خلاف طے پایا تھا اور جس میں مختلف قبائل عرب نے شرکت کی تھی ۔ مسلمانوں کا موجودہ احتجاج اسی مبارک معاہدہ کی طرح ہونا چاہئے جو ہر ظلم وقہرمانی اور نا انصافی کے خلاف تھا جس میں رسول اکرمﷺ نے نبوت ملنے سے پہلے تمام قبائل عرب کے ساتھ شرکت کی تھی اور نبوت ملنے کے بعد فرمایا تھا کہ اس طرح کے کسی معاہدہ کے لئے مجھے بلایا جائے گا تواب بھی میں اس میں شریک ہوں گا ۔
اس کے باوجود کہ کہ ظلم کی مخالفت مذہبی قدر ہے اور دین اسلام نے ظالم کا ہاتھ پکڑنے کا حکم دیا ہے لیکن اگر مسلمانوں نے احتجاجات کو یہ رنگ دیا کہ یہ ان کا مذہبی معاملہ ہے یا صرف ان کی شہریت کو خطرہ ہے، تووہ دوسرے اپنے ہم وطنوں کو اس تحریک سے الگ کردیں گے اور نتیجہ کے اعتبار سے یہ تحریک ناکام ہوجائے گی۔ہندوستان جیسے وسیع ملک میںاور تکثیری سماج میں آخر وہ وطنی تحریک کیسے کامیاب ہوسکتی ہے جو صرف ایک گروہ اور صرف ایک مذہب کے ما ننے والوں کی طرف سے برپا کی گئی ہو، جس کا ساتھ دوسرے ہم وطن نہ دے رہے ہوں اور وہ اس کے ہم نفس اور ہم نوا نہ ہوں جبکہ حکومت بھی مسلمانوں کے جان ومال اور عزت و آبرو کی دشمن ہو۔ اس وقت بعض بی جے پی کی حکومتوں نے احتجاجیوں کے خلاف سخت گیری شروع کردی ہے اور کہیں کہیں خرمن احتجاج پر حکومت کی بجلی بھی گری ہے چونکہ الکشن ابھی دور ہے اس لئے حکومت کو اطمنان حاصل ہے، ڈر یہ ہے کہ حکومت کی نا مہربانی اورناترسی اور ترہیب کی وجہ سے یہ مرغ بلندبام کہیں زیر دام نہ آجائے ۔ اس وقت برادران وطن اور ان کے سماحی اور سیاسی لیڈر شیر وشکر ہوکر جمہوریت اور آئین کی حفاظت کے لئے احتجاج کی تحریک کاپورا ساتھ دے رہے ہیں یہ بہت خوش آئند بات ہے اور بہت مسرت افزا ہے۔کوئی ایسی غلطی مسلمانوںکی طرف سے نہیں ہونی چاہئے جس کی وجہ سے وہ ساتھ چھوڑ دیں اور مسلمان تنہا رہ جائیں پھر اس اس احتجاج کی حیثیت ایسے دریا کے تلاطم کی ہوجائے گی جس کی تہ میں موتی نہ ہوں ،وہ صرف ایسی آوازوں کا شور ہوگا جو معانی کی قوت سے تہی ہوں ،وہ ایسی کشتی ہوگی جس کی قسمت میں ساحل نہ ہوگا،وہ ایسی صدا ہوگی جو صدا بصحراء کے مصداق ہوگی ، وہ ایسی آواز ہوگی جو دور افتادہ ہوگی ’’فغان قافلہ بے نوا کی قیمت کیا ‘‘۔
احتجاج ، جلوس ، مظاہرے اورمطالبے جمہوریت کے دور کے ضروری ہتھیار ہیں اور ان سے مفر نہیں لیکن یہ احتجا ج پامردی اور استقلال کے ساتھ کب تک جاری رہ سکے گا یہ بہت اہم سوال ہے، نگاہ دور بیں و دور رس کوحاضر الوقت مسائل کا پائدار حل بھی ڈھونڈنا چاہئے۔جاری احتجاجات کی حیثیت وقتی اور عارضی علاج کی ہے، یہ ضروری کام ہے لیکن ہمیں شفائے عاجل ہی پر نہیں شفائے کامل اور شفائے مستقل پر بھی توجہ دینی چاہئے اس کے لئے مرض کے اصل سبب کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت ظلم کررہی ہے اور ظلم اس لئے کررہی ہے کہ اس کو پارلیامنٹ میں غیر معمولی عددی قوت حاصل ہے ، یہ قوت اسلئے حاصل ہے کہ عوام نے اس کو و ووٹ دیا ہے ، عوام نے اس لئے حکمراں جمات کوووٹ دیا ہے کہ عوام کی اکثریت کے جسم میں اسلام اور مسلم دشمنی کے زہر کا انجکشن دیا گیا ہے ،زہر کا انجکشن سب سے پہلے انگریزمورخوں نے لگایا تھا انہوں نے اپنی سیاسی مصلحتوںکے پیش نظر تاریخ کی کتابیں لکھیں اور ان میں مسلمانوں کے مظالم کے فرضی قصے لکھے جن پر یقین کرنے کے بعد ہندووں اور مسلمانوںکے درمیان اتحاد اور یگانگت کا پیدا ہونا ممکن ہی نہ تھا، انگریزوں کی کتابوں پر یقین کرانے کے لئے ہندووں نے بھی مسلمانوں پر الزامات عائد کئے، اس سے پوری فضا مسموم ہوگئی۔جناب صباح الدین عبد الرحمن نے اور دوسرے مصنفین نے مسلمانوں کی رواداری کی تاریخ پر اردو میں کتابیں لکھیں لیکن مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابیں جامعات میں نصاب کا حصہ نہیں بن سکیں انہیں غیر مسلموں نے نہیں پڑھااسلئے اسلام دشمنی کا زہر برادران وطن کے ذہن ودماغ میں باقی رہا۔ اس لئے برادران وطن کے ذہن سے جب تک اسلام دشمنی کازہر نہیں نکالا جائے گا حالات نہیں بدلیںگے اورہر تھوڑے دنوں پر ایک نیا زخم لگتا رہے گا۔مسلمان ایک ہزار سال سے ہندووںکے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن وہی بیگانگی اور غیریت جو پہلے تھی وہ اب بھی باقی ہے ۔ اس لئے سب سے ضروری کام اور تمام کاموں پر مقدم کام علمی سطح پر اس زہر کا تریاق مہیا کرنا ہے اوربرادران وطن سے رابطہ قائم کرنا ہے ،ہر ایک سے باہمی تعارف اور شناسائی پیدا کرنا اور اپنے کردار اور نیک اطوار سے ان پر اچھا اثر ڈالنا ہے اور دلوں کو جیتنا ہے ۔یہی چیز حفاظت اسلام اور اشاعت اسلام کی ضامن ہوسکتی ہے قرآن میں ادفع بالتی ہی احسن سے یہی حسن اخلاق مراد ہے ،یہی وہ عمل صالح ہے جس پر استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے وعد اللہ الذین آمنوامنکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض ( النور ۷)
ہمارے ملک کی مذہبی قیادت ’’الار ‘‘ کی شکارہے ۔پہلے جب بیل گاڑی چلتی تھی یا گھوڑا گاڑی تو گاڑی بان سواریوں سے کہتا تھا داہنی طرف الار ہورہا ہے بائیں طرف آجائیے اور وہ کبھی بائیں جانب بیٹھے ہوئے سوار کو دائیں جانب جانے کو کہتا ۔ہماری مذہبی قیادت بھی ایک جانب جھکی ہوئی ہے۔ قرآن کے مطالعہ سے اور سیرت نبوی کے مطالعہ سے دین کا جومزاج سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ صرف مسلمانون کی اصلاح کی فکر نہیں ہونی چاہئے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی عاقبت بخیر ہونے کی فکر کی جانی چاہئے ، مسلمانوں کو خیر امت اس لئے کہا گیا تھا کہ ان کو تمام بنی نوع انسان کے لئے مبعوث کیا گیا تھا۔مسلمانوںکی بہت سی تنظیمیں ہے اور ان سب کا دائرہ کارصرف مسلمانوںکے درمیان ہے ۔قرآن مجید میں انبیاء کرام کا تذکرہ موجود ہے ۔ان کا کام اور ان کا منہج موجودہ دور کے علماء کے کام اور منہج سے مختلف ہے انبیاء کرام نے ایمان لانے والوں کی تربیت بھی کی تھی لیکن ان کو بنی آدم کے سارے کنبہ کی فکربھی تھی ، ہماری دینی قیادتوں کو صرف مسلمانوں کی فکر ہے۔چاروں طرف نظر ڈالئے تو ہر طرف لسان المسلمین (اردو)کے دینی مد ارس موجود ہیں جہاں قال اللہ وقال الرسول کا زمزمہ گونج رہا ہے،خانقاہیں ہیں جہاں سالک مقامات میں کھوجاتا ہے ،مسلم تنظیمیں بھی ہیں جو بہر حال مفید کام انجام دے رہی ہیں،مسلمانوں کی شریعت کی حفاظت کی بھی بجا طور پر علماء کو فکر ہے، اصلاح معاشرہ کا کام بھی ہورہا ہے ،مسلمانوں کے چند عصری اسکول اور کالج بھی ہیں جہاں نئے مضامین کی تعلیم ہوتی ہے، تجارت اور صنعت کے فروغ کی بھی کچھ نہ کچھ کوشش کی جارہی ہے کچھ اہل قلم تصنیف و تالیف میں مشغول ہیں ۔ بلا شبہ یہ سب مفید اور تعمیری کام ہیں۔لیکن اصل انبیائی مشن غائب ہے اور علماء کرام کو اس خلا کا اندازہ بھی نہیں ہے اور نہ ان کو اپنے منہج کی غلطی کا احساس ہے۔ کوئی شاہین صفت اور شاہین مزاج صاحب فکرشخص جسے اصل کام کی اہمیت کا اور ضرورت کا اندازہ ہے گرد وپیش کے علماء کی سرگرمیوںکودیکھ کرحسرت وافسوس کے ساتھ کہہ سکتا ہے ’’یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا ‘‘۔
(۱) اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ایک ایسی نئی بڑی ہمہ گیر تنظیم کا قیام ہے جو برادران وطن کے درمیان کام کرے اور ان کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کرے،نفرت سے بھرے لوگوں کے پاس محبت کا جام اور انسانیت کا پیغام لے کر آئے۔اور اس رابطہ کو نئے سرے سے استوار کرے جو ٹوٹ چکا ہے ،اس عظیم مشن کے لئے ایسے کارکن میسر آئیں جو اسلامی اخلاق کا پرتو ہوں ، شرافت ، انسانیت ،نرمی ، ہمدری اور اللہ کے مخلوق کی خدمت ان کے صحیفہ اخلاق کے جلی عنوانات ہوں ۔ سمجھ لینا چاہئے کہ موجودہ سنگین حالات کا اصل سبب نفرت کی وہ دیوار ہے جو ہندو اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہے اورجب تک یہ دیوان نہیں گرے گی دعوت کی راہ بھی ہموار نہیں ہوسکتی ہے۔ اب پہلی فرصت میںشریف انسانوں اور صاحب کردار نوجوانوں کو ساتھ لے کر Mass Contact کا پروگرام بنانا چاہئے اور برادران وطن کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کرنی چاہئے ، ان کے ذہن ودماغ میں حسن سلوک کے ذریعہ یہ تصور جاگزیںکردینا چاہئے کہ مسلمان اچھا شہری ،ایک اچھا پڑوسی، ایک اچھا انسان ہوتا ہے،شریف ہمدرد، خوش اخلاق، مہذب اور شائستہ۔ہم نے یہ کام صدیوں سے نہیں کیا ہے۔صحیح مزاج دین سے ،مزاج انبیاء سے دوری پر ماہ وسال کی سیکڑوں گردشیں پوری ہوچکی ہیں، اس مقصد کے حصول کے لئے رفاہ عام اور خدمت خلق کے عنوان سے ایک نئی تنظیم کو بروئے کار لانا ہوگا یا یوں کہئے کہ انبیائی کام یا دعوت دین کے کام کے لئے پہلے مناسب پلیٹ فارم تیار کرنا ہوگا۔ ،مسلمانوں کی موجودہ تنظیمیں جو اپنی جگہ مفید کام انجام دے رہی ہیں ان کواس نئی مہم کو بھی سر کرنے کے لئے یعنی برادران وطن سے رابطہ استوار کرنے کے لئے تیار ہنا پڑے گااور اپنے یہان اس ضروری کام کا ایک متحرک اور فعال شعبہ قائم کرنا ہوگا اور سماجی خدمت کے میدان میں آنا پڑیگا اگر اس وقت اس کام کے لئے ایک نئی تنظیم بھی قائم نہ ہوسکی اور مسلم جماعتوںکو بھی توفیق نہ ملی تو انفرادی طور ہر محلہ اور ہر بستی میں دو تین باشعور مسلمانوں کو مقامی طور پر اس کام کا آغاز کردینا چاہئے ۔یہ بات علماء دین کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ امت مسلمہ کو ’’ خیر امت ‘‘ کا جو تمغہ امتیاز رب العالمین کی طرف سے مرحمت فرمایا گیا تھا وہ ’’ اخرجت للناس ‘‘ کے مشن کے لئے تھا جسے غلطی سے ’’اخرجت للمسلمین ‘‘کا مرادف سمجھ لیا گیا ہے ۔یاد رکھئے کہ اس اہم کام کی طرف سے بے التفاتی کے عواقب خطرناک ہوسکتے ہیں‘ یہ ضروری دینی کام مرد بیمار کے لئے زود اثر دوائے شفا کی حیثیت رکھتا ہے اور اب ہر قیمت پر یہ کام انجام دیا جانا چاہئے ’’اس بے حد ضروری کام کے لئے جو اس بیمار ملت کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے اہل خیر اور اہل توفیق کو آگے آنا چاہئے ۔ ‘توفیق باندازہ ہمت ہے ازل سے۔‘‘ایسا نہیں ہے کہ غیر مسلموں کو اسلام سے مانوس کرنے کے اس بے حد اہمیت کے کام کا احساس راقم سطور کو پہلی بار حاصل ہوا ہے ۔علامہ سید سلیمان ندوی نے مولانا مناظر احسن گیلانی کو ایک خط لکھا تھا جو معارف مئی ۱۹۶۳ میں شائع ہواتھا ۔ اس خط کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ آپ سے دل کی بات عرض کرتا ہوں ، دینی خدمت کا شعور دماغ میں جب سے پیدا ہوا ہے ذہنی طور میرا دماغ ہمیشہ اس پہلو کوسوچتا رہا ہے کہ ہندوستان کے غیر مسلم اقوام تک اسلام کو آگے بڑھانے کی کوئی صورت نکالی جائے، میرا خیال ہے کہ موجودہ مسلمانوں کو زندہ کرنے کی کوشش لاحاصل ہی کوشش ہے ،ہاں یہ ممکن ہے کہ کوئی تازہ خون اسلام کی رگوں میں کسی راہ سے اگر آجائے تو یہ ممکن ہے کہ اس کی حرارت سے ان پرانے تھکے ہوئے اگھائے ہوئے مسلمانوں میں زندگی پیدا ہو ، مگر براہ راست ان کو جگانے اور جھنجھوڑنے کے کام کو قریب قریب مردوں کو جگانے اور اور جھنجھوڑنے کے ہم معنی سمجھ رہا ہوں۔‘‘
مذکورہ بالا خط مولانا مناظر احسن گیلانی کے نام تھا ، خود مولانا مناظر احسن گیلانی اپنے ایک مضمون میں جو معارف اپریل ۱۹۵۷ میں شائع ہواتھا لکھتے ہیں: ’’ مسلمانوں کے لئے وہ اندلس زیادہ پائدارہوتا جس میں خواہ الزہراء، اور قرطبہ اور غرناطہ نہ ہوتے مگر مسلمانوں پر جو فرض آخر الامم ہونے کی حیثیت سے عطا کیا گیا ہے اگر اس کو وہاں کا حکمراں طبقہ پیش نظر رکھتا تو وہ سیاسی مصائب و آفات کے جن گردابوں میں تہہ و بالا ہو کر رہ گئے ، شاید یہ صورت پیش نہ آتی ۔‘‘
(۲) ایک اوردوسرا ضروری کام ہے جو حالات کو بدلنے کے لئے ضروری ہے۔یہ بات ’’ خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں‘‘ ۔ ہندوستان کی تاریخ میں اہل دل اور اصحاب روحانیت نے غیر مسلم عوام اور خواص پر بہت اثر ڈالا تھا، ان کی خانقاہیں ستم رسیدہ انسانوں کی پناہ گأہیں تھیں، ان کی شفقت اور دلداری کی شبنم ان کے زخمی دلوں کے لئے مرہم تھی ، مضطرب اور بے چین دلوں کو وہاں سکون اور آرام ملتا تھا ،خلائق کا اورتمام مذاہب کے لوگوں کاان پراس طرح ہجوم ہوتا تھا جیسا پروانوں کا شمع پر ہوتا ہے ،بردران وطن بہت بڑی تعداد میں ان سے معتقدانہ تعلق رکھتے تھے اور کچھ لوگ اسلام بھی قبول کرتے تھے ۔لیکن اب ’’ آں قد ح بشکست وآن ساقی نہ ماند‘‘وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔اس وقت ضرورت ہے کہ ہر بستی اور ہر شہر میں ایسے فقیرانہ اور درویشانہ زندگی بسر کرنے والے زہد وعبادت کے پیکر موجود ہوں جو ارشاد وتربیت کا کام انجام دیں جو تمام مسلکی اختلافات سے بلند ہوں ۔ایسی شمعیں جب جب روشن ہوںگی پروانے بھی آئیں گے ۔مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ختم کرنے کے لئے اعلی روحانی استعداد رکھنے والے ایمان ویقین اور درد ومحبت کی مشعل جلانے والوں کی ضرورت ہے ۔ تاریخ میں درویشانہ زندگی اختیار کرنے والے اولیاء کرام نے رواداری اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے اور اس کے ساتھ پشت پر حکومت کی طاقت سونے پرسہاگہ کی حیثیت رکھتی تھی ،اب حکومت کی طاقت تو نہیں ہے، مسلمانوں کی حکومت دوبارقائم نہیںہوسکتی،اور نہ ان کا پرانا اوج اقبال واپس آسکتا ہے لیکن اگر مسلمان تعلیم میں اور اقتصادیات میں کوئی مقام پیدا کرلیں تو یہ انقلاب انگیز قوت حکومتی طاقت کا بدل بن سکتی ہے اور ان کی وجاہت کی بازیابی کا ذریعہ ہوسکتی ہے ٍ ۔ضروری ہے کہ ہر مسلمان کوئی حرفت اور ہنر سیکھ لے اور کوئی مسلمان گداگر باقی نہ رہے ، مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو مسلمانوں کی تعلیم، صنعت اور اقتصادی حالت کے استحکام کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز نے مسلمانوں کے امپاورمنٹ پر پورا لٹریچر تیار کردیا ہے جس سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہئے ۔
(۳) تیسرا ضروری کام جو مسلم قائدین کے ذمہ قرض ہے وہ تمام بڑے شہروں میں جامعات میں عصری تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے اسلامی ہوسٹل کی تعمیر ہے جہاں ہزاروں طلبہ کی ذہنی اور فکری اور اخلاقی تربیت کا انتظام ہوسکے ۔اور وہ امت مسلمہ کے کام آسکیں بہت پہلے مولانا مناظر احسن گیلانی نے اس اہم کام کی طرف توجہ دلائی تھی لیکن ان کا یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ۔
(۴)چوتھا ضروری کام دینی مذہبی مدرسوں میں نصاب تعلیم کی اصلاح ہے یعنی ایسا نصاب تعلیم ہو جسے پڑھ کر اور مدرسوں سے فارغ ہوکر علماء برادران وطن کو ان کی زبان میں مخاطب ہونے کے اہل ہوسکیں اور ان سے ڈائلاگ کرسکیں ،قرآن کی اس آیت کو سامنے رکھنا چاہئے جس میں کہا گیا ہے کہ ہر زمانہ کا پیغمبر اپنی قوم سے لسان قوم میں خطاب کرتا تھا ۔لسان قوم میں مہارت تو بڑی چیز ہے اب مسلمان اردوزبان سے بھی جو مادری زبان ہے غافل ہوتے جارہے ہیں ، نئی نسل اردو نہیں سیکھ رہی ہے اردوزبان میں ہماری مذہب اور ثقافت کا بہت بڑا سرمایہ ہے ، یہ اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ یہ سرمایہ ضائع ہوجائے گا ۔اردو زبان اہل اردو سے شکوہ سنج ہے اور ان کی بے غیرتی اوربے حمیتی پر ماتم کناں ہے ۔غالب نے شکایت کی تھی’’ تم کیسے مسیحا ہو دوا کیوں نہیں دیتے ‘‘ اب یہ کام اہل دانش وبینش اور علماء کرام کا ہے جن کی حیثیت مسیحائے قوم کی ہے کہ مذکورہ بالا خطوط پر امت کی رہبری کریں اور اپنی تقریر و تحریرسے ان کے اندر قوت عمل پیدا کریں اور انہیں بتائیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ تعمیراور تعلیم کے کاموں کے لئے اپنی ساری توانائیاں خرچ کرڈالی جائیں ، جنگی خطوط پر کام کیا جائے اور وقت کے تلوں سے سارا تیل نچوڑ لیا جائے اور فضول خرچی کا کوئی کام نہ کیا جائے اور اپنا سرمایہ ملت کے کام پر لگایا جائے،انہیں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ ان کا مقابلہ ایسی تنظیم (آرایس ایس )سے ہے جس کے پاس عسکری قوت اسقدر ہے جس قدر حکومت کے پاس ہے اورپھراس وقت حکومت بھی اسی کی ہے ،وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اسی کا ہے، سارے وزراء اسی کے چشم وابروکو دیکھ کر کام کرتے ہیںاور وہ اس کے آگے جواب دہ ہیں ۔ اس تنظیم کے پاس ملک میں سیکڑوں اسکول اور کالج ہیں، وہ دنیا کی سب سے بڑی پرائئویٹ تنظیم ہے اور اس کا نصب العین ہندو اسٹیٹ کو وجود میں لانا ہے۔ گذشتہ پچاس سال میں اس نے اتنی ترقی کی ہے کہ ملک کی اکثریت کے نزدیک وہ میر کارواں ہے اور مسلمانوں کی ترقی معکوس اس قدر ہے کہ وہ گرد کارواں بھی نہیں ہیں ۔ کیا باتیں غور وفکر کودعوت نہیں دیتی ہیں ۔ ہمیںغور کرنا ہے کہ ہمیں اب کیا کام کرنا ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ ’ دشمن اگر قوی است نگہباں قوی تر است‘‘ لیکن ایمان کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے ۔
حضرات ! میری بساط کیا ہے ۔ مجھ سے پہلے ایسے عالم اور دانشورگذرے ہیںجنہوں نے ان خطرات کی طرف توجہ دلائی تھی جو اب ہر طرف سامنے آگئے ہیں اور جن کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے لیکن انذار کچھ کام نہیں آیا اور قوم کی بے حسی میں کوئی فرق نہیں آیا اور قوم کی وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے۔تقریبا ایک صدی پیشتر علامہ سید سلیمان ندوی نے معارف کے شذرات (جولائی ۱۹۳۶)میں آگاہ کیا تھا :
’’ ایک نکتہ ہندوستان کے مسلمانوں کے غورکے قابل ہے ، اس ملک کے ہندووں نے خواہ وہ اپنے سیاسی مسلکوں میں کتنے مختلف ہوں ایک بات قطعی طور سے طے کرلی ہے ، وہ یہ کہ ان کا قومی نصب العین یہ ہے کہ ہندوستان میں ہندو تہذیب وتمدن کلچر اور ادب بلکہ حکومت تک کو دوبارہ قائم کیا جائے ، اور ہندوستان کو بجا طور پر’’ہندواستھان‘‘ بنایا جائے ،اس مقصد پر آریہ سماج اور سناتن دھرمی ، مہاسبھائی اور کانگریسی ، جی حضوری ، اور آزادو ملازم سرکار ،اور اور غیر ملازم سب متفق ہیں ، اور قوم کا ہرفرد اور ہر رکن اپنے اپنے راستے سے اس منزل مقصود کی طرف بڑھتا چلاجارہا ہے ، سوال یہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کا نصب العین کیا ہے اور وہ اس کے لئے کیا کررہے ہیں ۔ ‘‘
جب سخت ہندوتو اور نرم ہندتو دونوں کی منزل مقصود ایک ہوجائے تو پھرمسلمانوں کے ایمان ویقین تعلیم و اقتصاد کے استحکام کا چیلنج بہت بڑھ جاتا ہے ، کچھ کوششیں ضرور ہوئی ہیں لیکن وہ کافی نہیں ہماری ملی قیادت کو اب جنگی خطوط پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس مختصر تحریر میں پورا لائحہ عمل تجویز کردیا گیا ہے ۔ ملت اسلامیہ کے مرد بیمار کے لئے چار اجزاء پر مشتمل یہ لائحہ عمل ایک تیر بہدف نسخہ کیمیاء اور دوائے شفاہے ۔دیکھنا ہے مسلمانوں کے ارباب حل وعقد میں کون ان کاموں کے لئے اور تمام خطرات کے سد باب کے لئے آگے آتا ہے ۔ ہاتف غیب منتظر ہے کہ دیکھے کون ایسا مسلم قائد میدان میں آتا ہے جو ان افکار کو اور اس طویل مدتی منصوبہ کو عملی جامہ پہنائے اور یہ لکھے کہ اب مسلمانوں کے صحیفہ تاریخ کا ورق الٹنے والا ہے اور عزت وکامرانی کا دور شروع ہونے والا ہے ،ہر شخص کو انتظار ہے ’’ مردے از غیب بروں آید وکارے بکند‘‘ اس وقت حقیقی صورت حال یہ ہے کہ الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ۔کسی کو غلط فہمی نہ کہ جو کچھ لکھا جارہاہے وہ مضمون نگاری یا انشا پردازی ہے ۔جس طرح ماہر موسمیات موسم کی پیشین گوئی کرتے ہیں اسی طر ح میں بھی اوپر آسمان کو،نیچے زمین کو اور دونوں کے درمیان تیز وتند ہوائوں کودیکھ کر پیشین گوئی کرسکتا ہوں اور کوئی بھی صاحب نظر پیشین گو ئی کرسکتا ہے کہ اگر مذکورہ بالا تجاویز پر عمل نہیں ہوا اور زہر کا تریاق مہیا نہیں کیا گیا تو اس ملت کا وجود خطرہ میں ہے اور آفت وعذاب کی بارش ہونے والی ہے۔ مریض جاں بلب ہے اوروہ ونٹلیٹر پر ہے اورامرجنسی وارڈ میں ہے ، اسے آب حیات کی ضرورت ہے ،اطباء یونان اس حالت میں مریض کے لئے زہر مہرہ تجویز کرتے ہیں ، مذکورہ بالا تدبیروں کی حیثیت زہر مہرہ کی ہے اور تیر بہدف علاج کی ہے ۔ خدا را دیر نہ کیجئے اس ملت کو بچانے کے لئے اسلام اور مسلمانوںکے مستقبل کو روشن کرنے کیلئے تدبیریں اختیار کیجئے ۔اور اس کے لئے وقت کی اور مال کی قربانی کے لئے تیار رہئے۔مضمون ختم کرنے سے پہلے مولانا ابو الحسن علی ندوی کی ایک تقریر کا اقتباس ’’مسک الختام ‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی اجازت دیجئے:
’’باہمی اعتماد اور محبت پیدا کرنے کے لئے ہمیں ایک مجنونانہ اور سرفروشانہ جدوجہدکی ضرورت ہے ہندوستان تاریخ کے ایک موڑ اور فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا ہے ،ایک راستہ ہمیشہ کیلئے تباہی ، نہ مٹنے والے انتشار ،اور نہ ختم ہونے والے زوال کی طرف جاتا ہے، ایک راستہ ہمیشہ کے لئے امن وامان اتحاد ویکجہتی کی طرف جاتا ہے، ہر ایسے موڑ پر کچھ ایسے لوگ سامنے آجاتے ہیں جو تاریخ کا رخ اور
واقعات کا دھارا بدل دیتے ہیں ، ان کی دلیری ، ان کی صاف گوئی اور ان کی جانبازی پورے پورے ملک اورقوم کوبچالے جاتی ہیں، یہی لوگ ملک کے معمار ہوتے ہیں،اکثر ایسے لوگ سیاست اور حکومت کے ایوانوں سے باہر ، ملک کے بے لوث خادموںاور سچے روحانی درویشوں میں پائے جاتے ہیں، جن کی نیتوں پر شبہہ نہیں کیا جاسکتا ،جن کی صداقت اور بے نفسی مسلم ہوتی ہے ، اور ان کا ماضی ہر داغ سے پاک ہوتاہے ‘‘.

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *