نصرتِ الٰہی کا انتظار

ملک جن حالات سے گذر رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ جگہ جگہ مختلف بہانوں سے مسلمانوں کا قتل، ان کے ساتھ ظلم اور ناانصافی، طلا ق ثلاثہ بل کے بعد کشمیر کے خصوصی درجہ کا خاتمہ اور وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک، این آر سی کا نفاذ، بابری مسجد کے حصول کے لئے جاری کشمکش، موجودہ حکومت کا مسلمانوں کے تئیں سخت سے سخت تیور اور نہ جانے اس طرح کے کتنے خدشات اور اندیشے ہیں جن کے سبب پورے ملک میں مسلمان سہمے ہوئے ہیں اور ملک میں اسلام اور اس کے پیروکاروں کے لئے آنے والے حالات سے خوف زدہ ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ آخر خدا کی نصرت کب آئے گی؟
بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی طاقت سب سے بلند اور بالا و برتر ہے، اس کی عظمت و ہیبت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، وہ ہزاروں مکر اور منصوبوں کو لمحوں میں خال میں ملا دیتا ہے، ساری انسانی تدبیروں پر اس کا فیصلہ غالب رہتا ہے۔ اس نے فرعون اور نمرود جیسی طاقت کو تباہ و برباد کیا۔ قوم عاد، قوم ثمود اور ظالم حکمرانوں اور قوموں کی سرکشی اور پھر ان کے انجام بد کو قرآن نے جگہ جگہ بیان کیا اور اس سے عبرت حاصل کرنے کا سبق دیا ہے۔ جنگ بدر خدا کی نصرت کی بہترین مثال ہے کہ کفار مکہ اس وقت کے سارے جنگی ہتھیاروں سے لیس تھے؛ ان کی تعداد بھی مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ تھی، مسلمان ظاہری اسباب و وسائل میںبہت کم تھے؛ لیکن اللہ نے کفار کی شرارتوں، ان کے منصوبوں اور سازشوں کو ایسا ناکام بنایا کہ رہتی دنیا تک لوگ اسے یاد رکھیں گے۔ قلت تعداد کے باوجود مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی اور دشمنانِ اسلام کا غرور خاک میں مل گیا۔ اللہ تعالیٰ آج بھی اسی طاقت کے ساتھ موجود ہے اور مسلمانوں کے ساتھ اس کی نصرت کا وعدہ اٹل ہے، اس میںکوئی تبدیلی نہیں ہے؛ لیکن اس نصرت کے لئے کچھ شرطیں خود قرآن میں مختلف جگہوں میں بیان کی گئی ہیں جن کی تکمیل کے بغیر اللہ کی مدد اور اس کی نصرت کا انتظار لاحاصل اور بے معنیٰ ہے۔
پہلی شرط پختہ ایمان اور عمل صالح ہے۔ ایک کلمہ گو شخص کا ایمان اللہ کی ذات پر اتنا مضبوط اور طاقت ور ہو کہ حالات جیسے بھی ہوں کبھی اس کے اعتقاد اور یقین میں کمی نہ آئے، گھر میں فقر کی نوبت آجائے، بیماریوں اور حادثات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو، پریشانیوں اور تکالیف کا ہجوم ہو پھر بھی دل اس بات پر مطمئن ہو کہ میرا رب اللہ ہے وہی میری مراد کو پوری کر سکتا ہے، وہی سجدوں کے لائق ہے، میری پریشانیوں کو آسانی میں بدلنے والا اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ ایک سکنڈ کے لئے بھی تذبذب اور شک کی کیفیت پیدا نہ ہو ، مشرکانہ ماحول، دشمنان اسلام کی جانب سے اعتراضات اور ناموافق حالات کا ایمان پر کوئی منفی اثر پیدا نہ ہو یہ ایمان کی مضبوطی ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب و مقصود ہے اور یہی ایمان صحابۂ کرام کو حاصل تھا اس لئے کفر کی ساری طاقتیں مل کر ان کو ایمان سے ہٹا نہ سکیں اور جب تک وہ زندہ رہے تکلیفیں برداشت کرتے رہے؛ لیکن ایک لمحے کے لئے بھی ان کے دلوں میں کوئی شک پیدا نہیں ہوا۔ ایمان کے ساتھ نیک عمل اور اسلامی تعلیمات کی پیروی بنیادی شرف ہے۔ جس قدر اسلام سے محبت ہوگی اتنا ہی عمل کا جذبہ پیدا ہوگا گویا زندگی کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنا مضبوط اور طاقتور ایمان کی علامت ہے۔ چھوٹے بچوں کو جس سے محبت ہوتی ہے کھانے پینے، لباس و پوشاک اور وضع قطع میں اسی کا انداز اختیار کرتے ہیں جس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ فلاں شخص کو دل سے چاہتا ہے، دنیا میں ہر آدمی خدا کی محبت، عشق رسولؐ اور مستحکم ایمان کا دعویٰ کرتا ہے؛ لیکن اس کی زندگ عمل سے خالی ہوتی ہے جو اس کے دعوے کی تکذیب کے لئے کافی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایمان کے ساتھ عمل صالح پر زور دیا ہے اور ان دونوں کے پائے جانے کے بعد مدد اور غیبی نصرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ارشادِ باری ہے:
’’اور تم میں سے جولوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک اعمال کئے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے بنایا تھا اور ان کے لئے اس دین کو ضرور اقتدار اور قوت بخشے گا جسے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے اس کے بدلے انہیں ضرور امن دے گا۔ (النور:۵۵)
ابن کثیر وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ جب مسلمانوں کے سامنے اس وقت کی سب سے بڑی طاقت رومیوں کے پاؤں اکھڑنے لگے تو روم کے بادشاہ ہرقل نے اپنی قوم کے دانشوروں اور وزراء کو جمع کیا اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ جن لوگوں سے تم لڑ رہے ہو وہ تمہاری طرح انسان ہیں یا کچھ اور ہیں؟ ہرقل کے جواب میں لوگوں نےکہا وہ ہماری طرح انسان ہی ہیں پھر پوچھا کہ وہ زیادہ ہیں یا تم زیادہ ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم ان سے کہیں زیادہ ہیں، ہرقل نے کہا کہ پھر کیا وجہ ہے کہ تم ہر محاذ پر بری طرح شکست کھا رہے ہو؟ اس پر سب نے گردنیں جھکادیں، ایک عمر رسیدہ شخص اٹھا اور کہنے لگا: مسلمانوں کے غالب ہونے کا اصل راز یہ ہے کہ وہ صائم النہار اور قائم اللیل ہیں، راتوں کو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوکر نمازیں پڑھتے ہیں، دن میں روزے رکھتے ہیں، وہ دن کے شہسوار اور رات کے عبادت گزار ہیں، امانت دار ایسے کہ کسی کے مال کو بغیر قیمت چکائے ہاتھ تک نہیں لگاتے، عہد و پیمان کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، بھلائی پھیلاتے ہیں، برائی مٹاتے ہیں، اگر ان کے درمیان آپس میں اختلاف بھی ہوتا ہے تو ہر فریق حق بات کو بلا چوں و چرا تسلیم کر لیتا ہے، دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ ہم رات میں شراب پیتے ہیں اور دن میں بدکاری میں مبتلا رہتے ہیں دوسروں کا مال و حق ہڑپ کر لیتے ہیں ، وعدہ خلافی کرتے ہیں، ہمارا کردار ظالمانہ اور ہماری طبیعت مفسدانہ ہے، ہر قل نے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر لیا۔ (دورِ فتن میں راہ عمل صفحہ ۷۸)
اس طرح پوری اسلامی تاریخ پڑھ جائیے آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ نیک بندوں کی مدد کی ہے۔ فسق و فجور کے ساتھ اس کی مدد اور نصرت کبھی نازل نہیں ہوئی، رحمت اور نصرت الٰہی کو متوجہ کرنے کے لئے ایمان کے بعد عمل صالح کی حد درجہ ضرورت ہے اس کے بغیر نصرت کا انتظار اصول قدرت کے خلاف ہے۔
دوسری شرط مسلمانوں کا آپس میںاتحاد و اتفاق ہے۔ اگر گنتی کے اعتبار سے لوگ کم ہوں لیکن ان کے درمیان اتحاد اور اتفاق ہو، ایک مقصد اور مشن پرسب متفق ہوں تو کم ہونے کے باوجود وہ غیر معمولی طاقت کے مالک ہو جاتے ہیںا ور بڑے سے بڑے چٹان سے ٹکرانے کی ان میں صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے؛ لیکن اگر آپس میں انتشار اور اختلاف ہو، ایک دوسرے کا دل آپس میں ملا ہوا نہ ہو تو ایک جم غفیر کے باوجود انتہائی کمزور ہوں گے، ایسے لوگ ہمیشہ ناکام رہتے ہیں اور دنیا میں کبھی ان کو عزت و شوکت حاصل نہیں ہوتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اصحاب رسول کو خاص طور پر اختلاف و انتشار سے بچنے کی تاکید فرمائی تھی اور یہ حکم دیا تھا کہ آپس میں کسی بھی حال میں لڑائی جھگڑا نہیں کرنا ورنہ تم کثرت کے باوجود شکست کھا جاؤگے۔ قرآن کہتا ہے:
’’اور اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم مانو اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تم کمزور پڑ جاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘
اس حکم کا اثر یہ ہوا کہ صحابۂ کرام مختلف نسلوں ، خاندانوں اور علاقوں کے تھے، ان کے درمیان بہت سے مسائل میں اختلاف بھی تھا؛ لیکن کبھی دلوں میں دوریاں پیدا نہیں ہوئیں، وہ متحد اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے، باطل طاقتوں کے لئے ہمیشہ وہ چٹان ثابت ہوئے۔ ایک دوسرے پر نہ تنقید کرتے نہ دوسرے کو برا بھلا کہتے، ایثار اور ہمدردی میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ باطل ان سے لرزتا تھا، کثرت وسائل اور تعداد کے باوجود ان کی طرف دشمن آنکھ نہیں اُٹھاتے اور کبھی اگر کسی نے جرأت کی تو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر مقابلہ کیا اور ہمیشہ کے لئے ان کی طاقت کو مسمار کر دیا۔ آج جہاں مسلمانوں میں ایمان کی مضبوطی اور عمل کی کمی ہے وہیں اتحاد کا بڑا فقدان ہے۔ ہر شخص اپنی جماعت ، اپنے مسلک اپنے ایجنڈے کے تحفظ میں لگا ہوا ہے اور ملک کے موجودہ حالات میں بھی مناظروں کا بازار گرم ہے، ایک دوسرے پر تنقید اور کیچڑ اچھالنے کا مزاج عروج پر ہے، کوئی ایک انچ بھی اپنے طے شدہ اصول اور مشن سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے، منبر و محراب سے آج بھی گالیوں کی برسات ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کا اپنی فتح اور کامیابی کی امید اور دشمنوں پر فتح کی تمنا کبھی پوری نہیں ہوسکے گی، ضرورت ہے کہ مسلمان مسلکی اور جماعتی اختلافات کو فراموش کرکے دفاع دین کے لئے متحد ہو جائیں، جس کو آپ بہتر سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں لیکن دوسروں پر تنقید نہ کریں، ان پر کوئی مصیبت یا آفت آجائے تو اس پر ہنسنے اور احساس مسرت کے بجائے آگے بڑھ کر تعاون کریں، ان کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھیں ان کے دکھ درد میں کام آئیں، کسی کو جہنمی، گمراہ اور کافر کہنے کے بجائے اس کے لئے رحمت کی دعا مانگیں، جب اس طرح مسلمانوں کے درمیان محبت اور ایثار کا جذبہ پیدا ہوگا تو اللہ کی رحمت متوجہ ہوگی اور مسلمان ہر محاذ پر کامیاب ہوں گے۔
تیسری شرط دین الٰہی کی نصرت اور اس کا فروغ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے:
’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔‘‘ (محمد : ۷)
حضرات مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ دین کی نصرت سے مراد اس کی تبلیغ و اشاعت ہے یعنی جہاں تک انسان کی وسعت ہے اور جتنی طاقت ہے اس کے مطابق دین کو عام کیا جائے، اس کی روشن تعلیمات سے غیروں کو آگاہ کیا جائے۔ رسول اکرم ﷺ کے وصال کے بعد صحابۂ کرام دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل گئے اور آخری دم تک دین کی دعوت دیتے رہے۔ اس سے اسلام کو فروغ حاصل ہوا لوگ اسلام کی روشن تعلیمات سے واقف ہوئے، جس کے نتیجے میں وہ اس سے متأثر ہوکر اس کے قریب آئے اور ان کی دشمنی دوستی میں تبدیل ہو گئی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان جب دعوت کا کام کریں گے اور اپنی بستی سے لے کر ایوانوں تک دین کے پیغام کو عام کریں گے تو ان ہی میں سے کچھ لوگ اسلام کے شیدائی بن کر ابھریں گے اور مسلمانوں کو قوت حاصل ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ سارے لوگ اسلام کے مخالف ہیں، ان میں بہت سے افراد حقیقت نہ جاننے کی وجہ سے اسلام سے بغض رکھتے ہیں لیکن اگر انہیں اسلام کے عادلانہ نظام سے باخبر کیا جائے تو وہ اسے قبول کرکے مسلمانوں کے قریب آسکتے ہیں ، اس طرح باہمی فاصلے کم ہوں گے اور منافرت کا ماحول ختم ہوگا، اس میں نہ صرف دعوت کے کام کرنے والوں کی بھلائی ہے؛ بلکہ تمام مسلمانوں کے حق میں یہ بہتر ثابت ہوگا۔
آج اسلام کے تئیں بغض و عناد کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے کبھی غیروں کو اسلام کی سچائی بتانے کی کوشش نہیں کی اور اس کی پرکشش تعلیمات سے انہیں آگاہ نہیں کیا۔ ایک غیر مسلم سے ہم زندگی بھر کام لیتے ہیں، دنیا کے سارے کام ہم ان سے کراتے ہیں لیکن کبھی اس کو توحید اور رسالت کی بات نہیں بتاتے ، بہت سے برادرانِ وطن ہمارے ارد گرد رہتے ہیں، ان سے مختلف طرح کے ہمارے تعلقات ہوتے ہیں لیکن کبھی نماز اور روزے کے فوائد ان کو نہیں بتاتے ہیں، دین حق کا ذکر اگر مصلحت کے ساتھ ان کے سامنے کیا جائے تو یقیناً ان کو تجسس پیدا ہوگا، وہ قرآنی تعلیمات جاننے کی کوشش کریں گے اور ایک وقت آئے گا کہ اسلام کی سچائی کے دامن میں وہ پناہ لینے پر مجبور ہوں گے۔ دوسروں کی تہذیب و ثقافت اور غیر اسلامی کلچر سے ہم بہت جلد متأثر ہو جاتے ہیں اور نتیجے میں ان کی نقل شروع کر دیتے ہیں لیکن دوسروں پر اسلام کا عکس اور اس کی چھاپ ہم نہیں چھوڑ سکتے، اس لئے کہ خودہمارے ایمان میں وہ پختگی نہیں جس سے دنیا میں ہم انقلاب برپا کر سکیں۔
نصرت الٰہی کی چوتھی شرط مادی اور ظاہری اسباب کو اختیار کرنا ہے۔ ارشادِ باری ہے:
اور (اے مسلمانو! جہاں تک تم سے ہو سکے) ان کے مقابلے کے لئے تیار رہو جو کچھ ساز و سامان مہیا کر سکو قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے جمع کرو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر تمہاری دھاک بیٹھے اور ان کے سوا دوسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے اللہ ان کو جانتا ہے اور خدا کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کروگے وہ تم کو پورا پورا ملے گا اور تمہارا حق نہ رہ جائے گا۔(الانفال: ۶۰)
ہر زمانہ میں دفاعی قوت کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں، جس وقت جو قوت سب سے اعلیٰ ہو اس کے حاصل کرنے اور اس کی تیاری کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ تسبیح اور اَوراد و اذکار سے بلاشبہ اللہ سے تعلق حاصل ہوتا ہے لیکن دشمنوں پر غلبہ پانے کے لئے یہ کافی نہیں ہے، ورنہ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب میدان کارزار گرم نہ کرتے اور اپنی جانوں کو قربان نہ کرتے۔ ان سے بڑھ کر دنیا میں کون عابد و زاہد ہو سکتا ہے لیکن رات میں وہ جہاں عبادت کرتے وہیں دن کے اجالے میں اسلام کے بہترین اور بہادر سپاہی بن جاتے تھے جن کی شجاعت کو دیکھ کر دشمن کانپ اٹھتا تھا۔ آج سب لوگ اپنی تجارت اور اپنے مفادات کے تحفظ میں مست ہیں، عالمی اور ملی حالات کچھ بھی ہوں، شریعت میں ہزاد مداخلت کی جائے، مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ جائیں، لیکن ان کی نیند اور آرام میں کوئی خلل نہیں ہے، اخبارات پڑھ کر اور نیوز جان کر اس طرح آگے بڑھ جاتے ہیں کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں، دلوں میں درد ہے اور نہ کوئی تیاری۔ قرآن نے مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ آپ چوکنا رہیں اور جس سے جو بن سکے شریعت کے تحفظ کے لئے اسباب اختیار کریں، اگر کوئی مالدار ہے تو وہ مال خرچ کرے، اہل علم اسلام کی مدافعت کے لئے لٹریچر تیار کریں، تقریر و خطابت کے ذریعہ مسلمانوں کو جگائیں، جو لوگ سیاست سے جڑے ہوئے ہیں وہ سیاسی قوت بنائیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے جولوگ وابستہ ہیں وہ خالص اللہ کے لئے دین کی مدافعت اور اس کے فروغ و اشاعت کے لئے کام کریں، اسلام کے خلاف چیلنجوں کا بھرپور جواب دیں۔
غرض اللہ سے مضبوط تعلق، باہمی اتحاد و اتفاق، دعوت دین اور زمانہ شناسی یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے ہی ہم اللہ کی مدد اور اس کی نصرت کی امید کر سکتے ہیں۔ عیش و عشرت میں ڈوب کر نصرت الٰہی کی توقع بڑی غلطی اور اُصول قرآنی کے خلاف ہے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *