مسلمان کی قومیت
جو کسی جاہلی عصبیت کی طرف دعوت دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔ جو عصبیت کئے لیے جنگ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔ جو عصبیت پر مرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔
روزہ اور تعمیر سیرت
تقویٰ کا عام تصور یہی پایا جا تا ہے کہ وہ شخص متقی ہے وہ عبادات میں کثرت کرتا ہو اور معاشرتی تعلقات سے اپنے آپ کو کاٹ کر صرف اللہ کی یاد میں کسی مسجد کے گوشے میں بیٹھ گیا ہو یا نماز کے بعد دیر تک اذکار میں مصروف رہتا ہو۔ جبکہ احادیث سے یہ پیغام ملتا ہے کہ جس شخص نے روزہ رکھا اور فحش گوئی یا بری بات زبان سے کہنے سے نہ بچا، جس نے روزہ رکھا اور معاملات درست نہ کئے گویا کہ اس کا روزہ رکھنا یا نہ رکھنا برابر ہے۔
روزہ
روزے کی ایک دوسری خصوصیت بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ ایک لمبی مدّت تک شریعت کے احکام کی لگاتاراطاعت کراتا ہے۔ نماز کی مدّت ایک وقت میں چند منٹ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ زکوٰۃ ادا کرنے کا وقت سال بھر میں صرف ایک وقت آتا ہے۔ حج میں البتہ لمبی مدّت صرف ہوتی ہے مگر اس کا موقع عمر بھر میں ایک دفعہ آتا ہے اور وہ بھی سب کے لیے نہیں۔ ان سب کے برخلاف روزہ ہر سال پورے ایک مہینے تک شب وروز شریعت محمدیؐ کی اتباع کی مشق کراتا ہے۔ صبح سحری کے لیے اٹھو، ٹھیک فلاں وقت پر کھانا پینا سب بند کردو۔ دن بھر فلاں فلاں کام کر سکتے ہو اور فلاں فلاں کام نہیں کر سکتے۔ شام کو ٹھیک فلاں وقت پر افطار کرو۔ پھر کھانا کھا کر آرام کر لو، پھر تراویح کے لیے دوڑو۔ اس طرح ہر سال کامل مہینہ بھر صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک مسلمان کو مسلسل فوجی سپاہیوں کی طرح پورے قائدے اور ضابطے میں باندھ کر رکھا جا تا ہے
آخری تحفہ
ایک مہاجر حمزہؓ اور انصاری سہیلؓ کی لاشیں برابر پڑی تھیں۔اسلام کے رشتے نے خاندان اور وطن کے سارے امتیاز مٹا دیئے تھے۔
علماء اور قائدین حق گو بنیں
اسلام نے انسان کو جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں ایک اہم نعمت آزادی ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اس نعمت کی حفاظت کی گئی تھی۔ خلفائے راشدین کے زمانہ میں ایک عام آدمی کو بھی حاکم اور خلیفہ پر تنقید کا حق حاصل تھا۔