عالمی منظرنامہ

طالبان، امریکہ مذاکرات

شہری زلمے خلیل زاد کو افغان امور کے لیے اپنا نمائندۂ خصوصی مقرر کیا ہے۔ زلمے خلیل زاد اس سے قبل بھی افغانستان کے لیے امریکی حکومت کے خصوصی ایلچی رہ چکے ہیں۔ زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں سات رکنی امریکی وفد نے طالبان کے نمائندوں سے عمومی اور غیر رسمی مذاکرات کیے ہیں۔ یہ مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئے ہیں جہاں طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے۔ اب تک امریکی حکومت کا مؤقف یہ تھا کہ طالبان کابل حکومت سے مذاکرات کریں، جبکہ طالبان افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے کٹھ پتلی حکومت سے مذاکرات کے بجائے براہِ راست مذاکرات کی بات کررہے تھے اور اسی مقصد کے لیے سفارت کاری کے میدان میں کام کرنے کے لیے قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم کیا گیا تھا۔

Read More

افغانستان : سُپر پاورس کا قبرستان

طالبان نے انجام سے بے نیاز ہوکر اپنا جہاد جاری رکھا ۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں افغانستان کے اندر 1443 عسکری جھڑپیں ہوئیں جن میں جملہ 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے حملوں سے ہوئیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے حملوں میں ہونے والے جانی نقصان میں سن 2013 سے 2018 تک کے کسی بھی سال کے مقابلے میں مذکورہ برس 21 فیصد جب کہ افغان سکیورٹی فورسز اور امریکی فوج کی کارروائیاں کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 18 فیصد بڑھی ہے۔ اس کا مطلب ہے دونوں جانب کی شدت میں اضافہ ہوا ۔ ممکن ہے کہ اس سے امن مذاکرات کی اہمیت ڈونلڈ ٹرمپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی اور دوبارہ بات چیت کا آغاز ہوا ہوگا۔

Read More

طالبان مذاکرات اور برصغیر پر اس کے اثرات

کچھ باتیں ایسی ہیں جو بہر حال ہمارے ذہنوں میں صاف اور واضح طور پر، کم از کم اب کہ جب ہم اکیسویں صدی کے تیسرے دہے میں قدم رکھنے کے قریب ہیں، ہمہ دم روشن رہنی چاہئیں۔ایک تو یہ کہ جسے ’برصغیر ‘کہا جاتا ہے وہ فی الواقع’ برًِ عظیم‘ ہے۔ میانمار اور بنگلہ دیش سے بھارت پاکستان اور افغانستان و ایران تک سبھی علاقے جو چھے آزاد اور خود مختار ملکوں میں تقسیم ہیں وہ سب زمینی راستے سے جڑے ہوئے ہیں۔کوہِ اَراکان(برما) سے کوہ ِہند و کُش (افغانستان ) تک پورا سلسلہ پہاڑوں سے تو مربوط ہے ہی اب،پچھلے چالیس برسوں کے دوران چین کی مدد سے، بالائے کوہ، ہمالیائی سڑک راستے سے بھی جڑ چکا ہے۔ یعنی آپ اَراکان سے چلیں تو میدانی علاقوں میں اُترے بغیر آپ، ہمالیہ، کوہ قراقرم اور ہند وکش کی بلندیوں کو پار کرتے ہوئے’ کوہِ نہاوَند ‘ (ایران ) تک پہنچ سکتے ہیں

Read More

مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری

نیوزی لینڈکی حکومت نے جوا قدامات کیے ساری اسلامی دنیا اور انصاف کے علم بردارووں نے اس کی تعریف کی ہے۔ وزیر اعظم جیسنڈا نے جس طرح زخموں پر مرہم لگایا ہے اس سے درد کی شدت کم ہوئی ہے۔ انھوں نے دل جوئی کے سارے اقدامات کیے۔ جائے حادثہ کا دورہ کیا، متاثرین سے ملاقات کی، مسجد کی حفاظت کے انتظامات کیے، اسلحہ قانون میں تبدیلی کی، پارلیمنٹ میں قرآن کریم کی تلاوت کرائی، جمعہ کی اذان، خطبہ اور نماز سرکاری ریڈیو اور ٹی وی سے نشر کرائی، خود بھی نماز کے مقام پر شریک ہوئیں، اپنی گفتگو میں سلام کے ساتھ نبی اکرمؐ کی حدیث پاک کوڈ کی، اپنے شہریوں کو بھی ان تمام کا موں پر آمادہ کیا۔ شہریوں نے بھی مسلمانوں سے اظہار ہمدردی و اظہار یک جہتی کے دل نشیں مناظر پیش کیے، جو نعرے لگائے گئے وہ دلوں کو جیتنے کے لیے کار گر تھے۔

Read More

جیسنڈا آڈرن۔۔امن کی سفیر

نیوزی لینڈ کی فرض شناس خاتون وزیر اعظم محترمہ جیسنڈاآڈرن نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اسلامی لباس زیب تن کیا سر پر دوپٹہ بھی اوڑھااور موقعہء واردات پر پہونچ گئیں۔وہاں خواتین کو لپٹا لپٹا کر آنسو بھی بہائے اور انھیں دلاسہ بھی دیا۔یہاں انھوں نے جوکام کیا وہ عام بات تھی ۔خاص بات انھوں نے یہ کی کہ نیوزی لینڈ پارلیمنٹ کی سیشن کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کروایا۔یہ وہ عمل ہے جس کے لئے انھیں دنیا کی کوئی طاقت مجبور نہ کر سکتی تھی۔

Read More

چین وعرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

شاعر مشرق اقبال نے اپنے مصرعہ میں چین کے بعد عرب کا ذکر کیا ہے ،عرب دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ، فلسطین اور مسجد اقصی یہودیوں کے قبضہ میں ہے ۱۹۴۸ میں اور پھر ۱۹۶۷ کی جنگ میں فلسطینیوں کواپنے گھربار سے محروم ہونا پڑا ان کی اولاد آج تک پناہ گزین ہے ان کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت نہیں اب تک کئی ہزار فلسطینی ہلاک کئے جاچکے ہیں کئی ہزار جیلوں میں ہیں اور کئی ہزار زخمی ہیں امریکہ کی پوری سیاست قوم یہود کی مٹھی میں ہے ،

Read More

خطیب اقصیٰ کی وفات اور وارسو کانفرنس

غزہ کے مہاجر کیمپ ہی کی یہ یادیں بھی دل میں تازہ ہیں کہ ہمارے اساتذہ ہمیں تقاریر کی تربیت بھی دیا کرتے۔ کبھی یہ ہوتا کہ کسی چھوٹی کشتی میں سوار ہوکر ہم کھلے سمندر میں چلے جاتے۔ ہمارے اساتذہ ہمیں فی البدیہ تقریر کرنے کے لیے کوئی موضوع دیتے اور کہتے کہ یہ سمندر کی موجیں، موجیں نہیں آپ کے سامعین ہیں۔ آپ نے ان سے خطاب کرنا ہے۔ ہم تقریر کرتے اور ہمارے اساتذہ ساتھ ساتھ اپنا تبصرہ نوٹ کرتے جاتے۔ اس وقت کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ سمندر کی لہروں سے کیے جانے والے یہ خطاب بالآخر قبلۂ اوّل کے منبر پہ خطبات جمعہ کی بنیاد بنیں گے۔

Read More

یورپ پناہ گزینوں کی توجہ کا مرکز کیوں؟

شام کے مقتل میں ساڑھے چار برسوں کے دوران خون کی ندیاں بہ چکیں، چار لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے اور ملک کی نصف سے زائد آبادی گھر بار چھوڑ چکی تو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کسی نئے انسانی المیے کی بار بار نشاندہی بھی کی مگر عالمی جرگے داروں کی توجہ صرف دولت اسلامی ’’داعش‘‘ نامی ایک پر اسرار جن کو بوتل میں بند کرنے پر مرکوز رہی۔ بہت کم کسی کی توجہ ان ایک کروڑشامی شہریوں کی طرف گئی جو خانہ جنگی اور اقتدار کی رسہ کشی کی چکیوں میں پستے ہوئے گھر بار چھوڑ […]

Read More