بلا تبصرہ

اسلامک بینکنگ کا اثاثہ 1.8ٹریلین ڈالر کاتخمینہ
دبئی ،(پی ٹی آئی)عالمی سطح پر کمرشیل بینکوں کے ساتھ اسلامی بینکنگ کے اثاثے بڑھ کر 2011ء میں 1.3ٹریلین امریکی ڈالر ہو گئے اور موجودہ حالات میں 2013ء میں اس اثاثہ کے بڑھ کر 1.8ٹریلین امریکی ڈالر ہونے کا تخمینہ ہے ۔یہ اوسطاً سالانہ ۱۷؍فیصد اضافہ ہے ۔یہ بات ایک رپورٹ میں کہی گئی ۔’ارنسٹ اینڈ ینکس ورلڈ اسلامی بینکنگ کمپٹیٹوینس رپورٹ 2013ءکے مطابق عالمی سطح پر کمرشیل بینکوں کے ساتھ اسلامک بینکنگ کا اثاثہ میں بڑھ کر 2011ء میں 1.3ٹریلین ہو گیا۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ ۴ سال کے دوران اوسطاً سالانہ ۱۹؍ فیصد اضافہ ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اسلامک بینکنگ کی ترقی مسلسل مثبت سمت میں رہی ہے ۔مجموعی بینکنگ سیکٹر کے مقابلے اسلامک بینکنگ سیکٹر کی ترقی 50فیصد زیادہ تیز رہی ہے۔

قبیح فعل روکنے کے لیے صہیونی فوج کی خصوصی مہم
حیفا،(پی ایس آئی)اسرائیلی فوجیوں نے اپنے سنئیر زاور بھرتی کرنے والے آفیسرز کے ہاتھوں جنسی طور پر ہراساں کئے جانےکی شکایت کی ہے۔صہیونی فوج نے ایک مہم شروع کی ہے جس میں بھرتی کرنے والے آفیسرز پر کڑی نظر رکھی جائے گی اور فوج میں پھیلنے والے اس قبیح فعل کو روکنے کی کوشش کی جائے گی ،صہیونی مرد اور خواتین فوجیوں کے جنسی استحصال یا ریپ کے واقعات کے آگے بند باندھنے کی یہ مہم اتوار کو شروع کی گئی ۔خواتین کے امور انچارج اسرائیلی چیف آف جنرل سٹاف کے چیف ایڈوائزر کی سرکردگی میں شروع کئے جانے کا مقصد عملی طور پر جنسی حملوں سے قبل زبانی کلامی فحش گوئی کوکنٹرول کرنا بھی ہے ۔مہم کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ،اس سے قبل بھی اسی طرح کی مہم چلائی جا چکی ہے ۔تاہم اس مرتبہ شروع کی جانے والی مہم انتہائی بڑے پیمانے پر چلائی جائے گی۔ جس میں نئی فوج بھرتی کرنے والے آفیسرز کو جنسی محاوروں اور جذبات بر انگیختہ کرنے والے الفاظ سے روکا جائے گا ۔اس مہم میں اس طرح الفاظ کی شناخت کا عمل بھی جاری رہے گا اور حاصل ہونے والے ڈیٹا سے اسرائیلی فوجی مردوں اور فوجی خواتین کو خبر دار کر دیا جائے گا ۔اعداد و شمار کے مطابق سال ۲۰۱۲ء میں اس حوالےسے قائم کئے گئے مرکز میں موصول ہونے والی شکایات میں کمی آئی تاہم یہ شکایات ریپ یا جنسی استحصال کے واقعات کے مقابلے میں انتہائی کم تھیں۔تاہم اس سال خواتین کی نسبت مردوں کی جانب سے کی گئی شکایات میں اضافہ دیکھا گیا ۔سال ۲۰۱۲ء میں مرد فوجیوں کی جانب سے جنسی استحصال کی شکایات میںسات فیصد اضافہ ہوا۔اس سال تین خواتین فوجیوں پرجنسی حملے کئے گئے ۔ذرائع کے مطابق اس حوالے سے رجسٹرڈ کئے گئے واقعات کی تعداد کے علاوہ بہت سی خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جو اس عمل کی شکایت کرنے کے بجائے خاموشی ہی اختیار کرنے کو مناسب خیال کرتی ہیں۔یا د رہے کہ خود کو دنیا کی بہترین قوم ماننے والے اسرائیلیوں کی فوج میں صرف مرد ہی خواتین کواستحصال کا نشانہ نہیں بناتے ہیں۔

انٹیلی جنس سربراہ کو امام کے اغوا کے جرم میں دس سال قید کی سزا
( اٹلی حکومت کا تاریخ ساز فیصلہ)
روم ۱۳؍فروری (یو این آئی)اطالوی فوج کے جاسوس ادارے کے سربراہ نیکولوپولاری کو ایک مشتبہ امام کے اغوا کی پاداش میں حکومت نے دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔اغوا کا یہ واقعہ دس سال قبل پیش آیا تھا،نیکولوپولاری کے نائب مارکو مانسینی کو نو سال اور تین ایجنٹوں کو بھی چھ سال کی سزا سنائی گئی ہے۔اس کیس میں ۲۶؍امریکی اہلکاروں کو بھی ان کی غیر موجودگی میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔یہ سزا ئیں دس سال قبل امریکہ کے مشتبہ دہشت گردوں کو غیر قانونی طور پر ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے یا رینڈیشن پروگرام کے دوران ابو عمر نامی امام کوگرفتار کرنے کے جرم میں دی گئی ہے ۔دنیا میں پہلی بار ایسے مقدمات میں جن میں سی آئی اے کے اہلکار ملوث ہوں ،کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔مصر سے تعلق رکھنے والے اسلام پسند اسامہ مصطفی حسن کو جو ابو عمر کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے اور اٹلی کے جاسوسی ادارے نے ۲۰۰۳ء میں ایک مشترکہ کارروائی کے دوران میلان کی ایک گلی سے اٹھایا تھا۔ابو عمر نے اس وقت اٹلی میں سیاسی پناہ لی ہوئی تھی ۔کہا جاتا ہے کہ انہیں ہوائی جہاز کے ذریعہ مصر منتقل کیا گیا تھا جہاں ان پر مبینہ جسمانی تشدد کیا گیا تھا۔فیصلہ سنانے والی عدالت نے زیریں عدالت کے اس فیصلے کو رد کر دیا جس کے تحت ان پانچ افراد کو رہا کیا گیا تھا،ان سزاؤں کے خلاف بہر حال اپیل کی جا سکتی ہے ۔نیکولوپولاری کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ کل سنائے جانے والے اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے ۔نیکولو کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے سرکاری راز فاش کرنے پر پابندیوں کی وجہ سے اپنے مؤکل کا صحیح طرح سے دفاع نہیںکر سکے۔
کفر اور شادی ٹوٹنے کا انفرادی فتوی مسترد
لندن ،۱۰؍فروری (پی ایس آئی)برطانیہ کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے ۵ مسلم ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے ’’گے میرج بل‘‘کے حق میں ووٹ کے معاملے پر دئے گئے انفرادی فتوے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ سیکولر ملک میں اس انداز سے کفر کے فتوے دینا اسلام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ،جب کہ مرکزی جماعت اہل سنت برطانیہ و یورپ نے اس معاملے پر مرکزی رہنماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس اتوار کو لندن میں طلب کر لیا ہے اور جماعت اہل سنت کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کفر اور شادی ٹوٹنے کے انفرادی فتوؤں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔اس معاملے پر رائے دینے کے لیے مفتیان اسلام کا اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے ۔جبکہ لبرل ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے لارڈ قربان حسین کا کہنا ہے کہ وہ ہاؤس آف لارڈز میں اپنے عقائدسے متصادم بل کی حمایت نہیں کریں گے ۔واضح رہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کے پانچ مسلم ارکان صادق خان،شبانہ محمود ، روشن آراعلی،انس سرور اور ساجد جاوید نے ہاؤس آف کامنز میں گے میرج بل کے حق میں ووٹ دیا جب کہ رحمن ایم پی نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا ۔ یاسمین قریشی اور خالد محمود نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیاتھا۔اس معاملے پر مرکزی سنی جمعیت العلماء برطانیہ کے صدر مفتی محمد اسلم نقشبندی نے بل کے حق میں ووٹ دینے والے ارکان کے بارے میں فتوی دیا تھا کہ ان کے نکاح ٹوٹ گئے ہیں اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں ۔اس فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے مرکزی جماعت اہل سنت برطانیہ و یورپ کے مرکزی رہنماعلامہ قاضی عبدالعزیز چشتی نے کہا کہ اس سیکولر ملک میں اس قسم کے انفرادی فتوے جاری کرنا درست نہیں ہے اور نہ ہی اس کی حقیقت ہے ،انہوں نے بتایا کہ جس طرح چرچ آف انگلینڈ نے ہم جنس پرستوں کی شادی رجسٹرڈ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح مسلمان بھی انہیں رجسٹرڈ نہیں کریں گے تاہم اس بارے میں ذاتی فتوؤں کی بجائے اجتماعی نظام بنایا جانا چاہیے اور مفتیان اسلام کا اجلاس طلب کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر غور کے لیے مرکزی جماعت اہل سنت کے سرپرست اعلی علامہ پیر عبد القادر گیلانی کی صدارت میں اتوار کو والتھم فاریسٹ میں اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں علامہ سید زاہد حسین رضوی،علامہ پروفیسر سید احمد حسین ترمذی ،علامہ احمد نثار بیگ قادری،علامہ قاضی عبداللطیف قادری،علامہ ظہیر ، صاحبزادہ پیر سید اظہر حسین گیلانی،مفتی فضل احمد قادری ،علامہ سید انور حسین کاظمی ،علامہ غلام جیلانی اور دیگر رہنما شرکت کریں گے۔قاضی عبدالعزیز چشتی نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے معاملات پر دار الحرب میں رہنے والے مسلمانوں کو اجتماعی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔جب کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے مرکزی رہنما حافظ عبد الاعلی نے کہا کہ گے میرج بل کے حق میں ووٹ دینے والے ارکان کافر نہیں ہوئے ،نہ ہی ان کا نکاح ٹوٹا ہے،تاہم وہ گنہ گار ضرور ہوئے ہیں ۔حافظ عبد الاعلی نے کہا کہ اگر ہر شخص دوسرے کو کافر قرار دینا شروع کر دے گا تو اس سے اسلام کی بدنامی ہوگی۔دینی معاملات کو اس طرح مذاق نہیں بنانا چاہیے ،انہوں نے کہا کہ سیکولر ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو دینی معاملات میں احتیاط کرنا چاہیے۔

’زانی‘نتیانند کو بنایا گیا اکھاڑوں کا مہا منڈلیشور
نئی دہلی ۱۳؍فروری(صحافت)عصمت دری کے معاملے میں ملزم رہے جنوبی ہند کے سوامی نتیانند کو مہانروانی اکھاڑے نے مہا منڈلیشور بنا دیا ہے ۔نتیانند کو یہ لقب دیے جانے کے ساتھ ہی بڑا تنازعہ کھڑاہو گیا ہے۔دراصل اکھاڑوں میں مہا منڈلیشور کا لقب بہت ہی بڑا اور مقدس سمجھا جاتا ہے ۔ اس عہدے پر تقرری کے لیے ساتوں اکھاڑوں کے نمائندوں کی رضامندی ضروری ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ نروانی اکھاڑے کے تمام منڈلیشور بھی اپنی سفارش کرتے ہیں۔جس کے بعد نروانی اکھاڑے کے سربراہ کسی بھی سنت کو اس لقب سے نوازتے ہیں۔سوال سب سے بڑا یہی ہے کہ جس شخص پر کورٹ میں عصمت دری کا معاملہ چل رہا ہو اسے مہا منڈلیشور بنانا کتنا مناسب ہے۔سوامی نتیانند کو جنوبی ہند کا پہنچا ہوا سنت مانا جاتا تھا لیکن ایک متنازعہ وڈیو کے سامنے آنے کے بعد ان کی کافی تنقید کی گئی تھی۔الہ آباد میں جاری مہا کمبھ میں موجود کئی سادھو سنتو ں نے عصمت دری کے ملزم سوامی نتیا نند کو مہا منڈلیشور بنائے جانے کے فیصلے کی زبردست تنقید کی ہے۔

انسداد دہشت گردی : ہند -اسرائیل جوائنٹ ورکنگ گروپ کا اتفاق
نئی دہلی،۲۵؍فروری (اے یو ایس)ہندوستان اور اسرائیل نے دہشت گردی سے مشترکہ طور پر لڑنے پر اتفاق کیا ہے دونوں ملکوں کے انسداد دہشت گردی کے مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس یہاں منعقد ہوا۔وفد کی قیادت وزارت امور خارجہ کے اسپیشل سکریٹری مسٹر اشوک کمار مخرجی نے کی ۔ اسرائیلی وفد کی قیادت مشترکہ طور پر سفیر جیرمی ایسا شراف،وزارت امور خارجہ میں ڈی ڈی جی برائے اسٹریٹجیک امور اور مسٹر ایٹان بین ڈیوڈ ،وزیر اعظم کے دفتر میں دہشت گردی مخالف بیورو کے سربراہ نے کی ۔دونوں ممالک کے وفود متعلقہ وزارتوں اور ایجنسیوںکے نمائندوں پرمشتمل تھے۔ دونوں فریقوں نے دہشت گردی سے پیدا ہونے والے خطرات کے امکانات کے بارے میں تبادلہ خیالات کیااور اس لعنت کا قلع قمع کرنے کے بارے میں اپنے عہد کا اعادہ کیا۔دونوں وفود نے علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے خطرات کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر انسداد دہشت گردی کے بارے میں اقدامات ،ملکوں کے ذریعہ ہوا دی جانے والی دہشت گردی ،دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی منتقلی کی روک تھام ،باہمی دلچسپی کے امور پر تعاون اور 26/11اور 13/2سے سبق لینے کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا ۔طرفین نے انسداد دہشت گردی کے شعبہ میں مذاکرات اور تعاون کو فروغ دینے پر بھی رضامندی ظاہر کی ۔ جوئنٹ ورکنگ گروپ کی ۹ویں میٹنگ یروشلم میں ۲۰۱۴ء میں منعقد کی جائے گی۔

مسلم کشی کی مجرم کو ڈنانی کو راجناتھ نے بتایا بے قصور
احمدآباد ۲۵ ؍فروری (صحافت)گجرات کے نروڈا پاٹیا مسلم کش فسادات کے معاملے میں خصوصی عدالت نے نریندر مودی حکومت کی سابق وزیر مایاکوڈنانی کو ۲۸ سال کی جیل کی سزا سنائی ہے لیکن بی جے پی کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ عدالت کے فیصلے کے بر عکس کوڈنانی کو بے قصور سمجھتے ہیں ۔ مودی کو پارٹی کا سب سے مقبول لیڈر ماننے والے راج ناتھ سنگھ سے جب یہ پوچھا گیاکہ ۲۰۰۲ء کے فرقہ وارانہ فسادات میں ملزم مایا کوڈنانی یا امت شاہ جیسے لیڈروں کو کابینہ میں جگہ دینے والے مودی قومی سطح پر قابل قبول کیسے ہوں گے تو انہوں نے کوڈنانی کوبھی کلین چیٹ دے دی ۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پارٹی خصوصی عدالت کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہے ،انہوں نے کہا کہ ایک عدالت کا فیصلہ آیا ہے ، ہم اس کا احترام کرتے ہیں ۔اب دوسری عدالت میں اپیل ہوئی ہے پھر سپریم کورٹ میں اپیل ہوگی ۔ یہ سلسلہ تو چلے گا ہی ۔
نرودا پاٹیا کے مسلم کش فسادات ۲۸؍فروری ۲۰۰۸ء کو گودھرا سانحہ کے بعدہوئے تھے،جب وہاں گھیر کر ۹۷مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور کوڈنانی پر اس بھیڑ کی قیادت کا جرم ثابت ہو گیا ہے ۔اسی معاملے میں کوڈنانی کو دو دفعات میں سزا دی گئی تھی۔ایک دفعہ میں انہیں ۱۰سال جب کہ دوسری دفعہ میں ۱۸ سال قید کی سزا دی گئی۔کوڈنانی تین بار پارٹی کی رکن اسمبلی رہیں اور مودی حکومت میں وزیربھی تھیں ۔مگر ۲۰۰۹ء میں جب سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر ایس آئی ٹی نے انہیں پوچھ گچھ کے لیے بلایا ارو پھر بعد میں گرفتار کیا تو انہیں عہدے سے ہٹنا پڑا ۔وہ پہلی رکن اسمبلی تھیں جنہیں گجرات فسادات میں سزا ہوئی ۔

مہا کنبھ ۲۰۱۳ء :نتیانند کو مہا منڈلیشور کی ڈگری کی مخالفت
سنگم (الہ آباد)۱۳ فروری،(پی ایس آئی)جنسی اسکینڈل میں جیل کی ہوا کھا چکے کرناٹک کے متنازعہ سنت سوامی نتیانند کو مہا کنبھ میلے میں نروانی اکھاڑے کے ذریعہ مہالنڈیشور کی ڈگری سے نوازے جانے کی دیگر اکھاڑوں نے مخالفت کی ہے ،مہا نروانی اکھاڑے نے تنازعے سے بچنے کے لیے منگل دیر شام گپ چپ طریقے سے نتیانند کو عہدہ دے دیا ،اس متنازعہ شخصیت کو مہامنڈلیشور کا لقب دینے سے پہلے تمام اکھاڑوں اور سنتوں کو دعوت نامہ تک نہیں بانٹا گیا ۔نتیانند کو مہا لنڈیشور بنائے جانے کی نرجنی اکھاڑے نے کھل کر مخالفت کی ہے۔اکھاڑے کے سکریٹری نریندر گری نے بدھ کے روز نامہ نگاروں سے کہا کی کسی بھی متنازعہ سنیاسی کو گپ چپ طریقے سے مہا منڈلیشوربنانا مذہب کے خلاف ہے ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ مہا نروانی اکھاڑا سیکس اسکینڈل کے ملزم نتیانند سے مہا منڈلیشور کا لقب واپس لیں ،اٹل اکھاڑے کے ایک سنت نے کہا کہ روایت کے مطابق مہا منڈلیشور کے لیے دوسرے اکھاڑوں کے مہنتوں ، عہدیداروں اور اہم سنتوں کو بلایا جاتا ہے ۔وہ چادر اوڑھا کر اکھاڑے کے اس فیصلہ پر اپنی مہر لگاتے ہیں ،لیکن نتیانند کے لیے چند گنے چنے لوگوں کو چھوڑ کر کسی کو نہیں بلایا گیا ،ادھر نتیانند کو مہا منڈلیشور عہدہ دینے کے معاملے میں مہا نروانی اکھاڑے نے ان پر لگے الزامات کو ان کا ذاتی معاملہ قرار دیا ہے ۔اکھاڑے کے سکریٹری رویندر پوری نے کہا کہ نتیانند پر لگے الزامات سے اکھاڑے کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔یہ ان کی ذاتی زندگی ہے انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے شمالی اور جنوبی بھارت کے سنتوں کے درمیان پل بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔عام طور پر جنوب بھارت کے سنتوں کو شکایت رہتی ہے کہ شمالی بھارت کے سنت انہیں عزت نہیں دیتے ہیں۔

یہودی مردوں کا مخصوص لباس پہننے پر ۱۰ خواتین گرفتار
مقبوضہ بیت المقدس ،(پی ایس آئیٰ)اسرائیلی پولیس نے یہودی مردوں کے عبادت کے لیے مخصوص لباس کو پہننے کے جرم میں دس عورتوں کو یہود کی ایک مقدس جگہ سے گرفتار کر لیا ہے ۔ان یہود یہ عورتوں کو مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصی کے احاطے میں واقع دیوار غربی کے قریب سے گرفتار کیا گیا ہے ۔اس جگہ کا انتظام کٹر آرتھوڈکس قانون کے مطابق جاتا ہے ۔اس کے تحت یہودی خواتین پر مردوں کی عبادت کے لیے مخصوص عبا اوڑھنے اور مقدس اوراق کی تلاوت پر پابندی ہے۔گرفتار شدہ خواتین میں امریکا پلٹ اصلاح پسند ربی سوسان سلورمین کی بہن ہیں۔’’دیوار کی عورتیں ‘‘نامی گروپ سے تعلق رکھنے والی دو اور امریکی شہری خواتین اور ایک اسرائیلی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے ۔یہ گروپ یہودیہ خواتین کومذہب میں صنفی برابری دلانے کے لیے مہم چلا رہا ہے اور دیوار غربی میں یہودیات کے لیے ماہانہ بنیاد پر دعائیہ عبادات کا اہتمام کر تارہتا ہے ۔اس کی بعض ارکان کو ماضی میں بھی مردوں کے لیے مخصوص عبا یا پہننے پر گرفتار کیا گیا تھالیکن بعد میں انہیں کوئی فرد جرم لگائے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا۔سوسان سلورمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے مردو ں کی عبادت کے لیے مخصوص شال کو اتارنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پولیس ان کی سترہ سالہ بیٹی سمیت گرفتار کی گئی عورتوں کو ایک اسٹیشن پر لے گئی ،انہوں نے پولیس اسٹیشن سے ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں بتایا کہ وہ ایک گھنٹہ طویل دعائیہ سیشن میں شریک تھیں کہ اس دوران پولیس اہلکار آگئے ۔انہوں نے ہم سے تقاضا کیا کہ ہم عبادات کے دوران شالیں اتار دیں لیکن ہم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے بعد ہمیں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔اسرائیلی پولیس کے ترجمان میکی رونفیلڈ کا کہنا ہے کہ ان خواتین نے عدالت عالیہ کے عبادت کے لیے وضع کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے ۔وہ ایک عشرہ قبل کے عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیتے رہے تھے۔اس کے تحت یہودی عبادت گزاروں کے درمیان کسی تنازعے سے بچنے کے لیے آرتھوڈکس اصولوں کی پیروی کا حکم دیاگیا تھا۔

پاکستان ایک جعلی ملک ہے؛ جلد ہی ہندوستان میں ضم ہو جائے گا
جسٹس (ر) مارکنڈے کاٹجو
“پاکستان ایک جعلی ملک ہے اور ایک دن وہ اور بنگلہ دیش ہندوستان میں دوبارہ ضم ہو جائیںگے۔” “پریس کائونسل آف انڈیا کے چیئر پرسن جسٹس (ر) مارکنڈے کاٹجو نے یہ بات حیدرآباد میں اتوا ر کو کہی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہآج گرچہ ہندو اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت فرقہ وارانہ ذہنیت کی حامل ہے مگر ایک صدی قبل ایسا نہیں تھا۔ پاکستان کے نام سے ایک جعلی ملک کھڑا کیا گیا۔ یہ ایک مصنوعی طریقے سے انگریزوں کے ذریعہ قائم کردہ وجود ہے تاکہ ہندو مسلمان آپس ہی میں لڑتے رہیں””” اور ہندوستان ایک طاقتور صنعتی قوم کے طور پر ترقی نہ کرسکے۔
وہ ایک سمپوزیم بعنوان” دہشت گردی کی رپورٹنگ میں میڈیا کیا واقعی حساس ہے” میں شرکت کے بعد سوالات کے جواب دے رہے تھے۔
“پاکستان ایک جعلی ملک ہےاور ایک دن ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش ایک بار پھر آپس میں ضم ہو جائیں گے۔ ا س میں 15 سے 20 سال لگ سکتے ہیں۔ جنہوں نے ہمیں تقسیم کیا ہےوہ آسانی سے ہمیں دوبارہ جڑنے نہیں دیں گے۔ وہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم آپس میں لڑتے رہیں۔ مگر ہم 15 سے 20 سال کے عرصہ میں ایک مضبوط، ترقی پسند سیکولر حکومت کے تحت دوبارہ آپس میں ضم ہو جائیں گے،” انہوں نے کہا۔” اسّی فیصد ہندو اور اسّی فیصد مسلمان فرقہ وارانہ ذہنیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے” ۔ انہوں نے مزید کہا: 1857ء میں ملک میں صفر فیصدی فرقہ واریت تھی۔ گرچہ اس وقت بھی مسلمانوں اور ہندئووں کے درمیان اختلافات تھے” ۔(انڈین اکسپریس، 7اپریل، بحوالہ پریس ٹرسٹ آف انڈیا۔ دی ہندو بحوالہ نمائندہ خصوصی)

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *