فلسطینی بچوں کی سنگ باری یہ غاصب کے خلاف مزاحمت، سن بلوغ کی علامت ، خاندانی روایت اور تہذیبی شعار بن چکی ہے

۱۷

سالہ محمد ابو ہاشم بغیر آستین کا بنیان پہنے سورہا تھا تبھی اچانک ۸؍ جولائی کو اسرائیلی فوجی صبح چار بجے اس کے گھر میں زبردستی گھس پڑے۔ جب وہ اس کو گرفتار کرکے لے جانے لگے تو اس کی ماں ان کے پیچھے ایک لمبی آستین والی شرٹ لے کر اسے دینے کو دوڑی۔ دونوں کو خوب اچھی طرح معلوم تھا کہ تفتیش کے کمرے میں بہت ٹھنڈ ہوگی۔

اسرائیلی فوجیوں اور قابض اسرائیلیوں پر سنگ باری کے نتیجہ میں تین سال میں یہ اس کی چوتھی گرفتاری تھی۔ اس کے تین بڑے اور دو چھوٹے بھائی بھی اسی الزام میں پابند سلاسل ہوچکے تھے۔ اور ان کے والد بھی اس وقت جیل ہی میں فروکش تھے۔
’ہر بچہ کے کچھ شوق ہوتے ہیں۔ اور میرا شوق ہے سنگ باری۔‘ ابو ہاشم نے اپنی حالیہ گرفتاری کے چند ہفتوں قبل ہی یہ انکشاف کیا تھا۔ ’ایک کش مکش سے بھرا دن کسی خالی دن کے مقابلے بہر حال اچھا ہوتا ہے۔‘
…پتھر پھینکتے نوجوان اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جدو جہد کا لازمی جزء بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۲ء کے درمیان ۱۷۰۰۰؍ نابالغ بچے (اسی جرم سنگ باری میں) حراست میں لیے گئے جن میں سے کئی کی عمر صرف نو سال کی تھی۔
بیت عمر جو بیت لحم اور ہیبرون کے درمیان ۱۷۰۰۰نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور جو چہار جانب سے قابض اسرائیلی بستیوں سے گھرا ہے، اس گاؤں میں پتھر پھینکنا سن بلوغ کو پہونچنے کی علامت اور مزاحمت کی ایک پر وقار نشانی سمجھا جاتا ہے۔ بچے جس وقت یہاں پتھر نہیں پھینک رہے ہوتے اس وقت بھی وہ اسرائیلی فوج اور فلسطینی عرب کا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں۔ جس میں وہ ڈرامائی انداز میں سنگ باری ٹکراؤ اور گرفتاری کا تماشہ دکھاتے ہیں۔ جب ۱۷؍ سالہ بلال ایاز عواد کو جون میں ۱۶؍ ماہ قید با مشقت (درجرم سنگ باری) کے بعد رہا کیا گیا تو اس کا استقبال ایک جنگی ہیرو کی طرح کیا گیا۔ گلیوں میں آتش بازی اور دونوں طرف عروسی لباس میں ملبوس دوشیزاؤں نے پھول برسا کر اسے خوش آمدید کہا۔
اس علاقہ کے اسرئیل فوجی کمانڈر کے مطابق ہفتہ میں ۵ تا ۱۵ بار سنگ باری کے واقعات ہوتے ہیں۔ اور ۸؍ جولائی کو ابو ہاشم اور اس کے والد کی گرفتاری کے ساتھ ہی ۲۰۱۳ء کے شروع سے لے کر اب تک صرف اس گاؤں سے گرفتار ہونے والوں کی تعداد ۴۵ ہوچکی ہے۔ جس میں سے ۳۰ لوگوں کی عمر ۱۳سے ۱۹ سال کے درمیان ہے۔ مقامی اسکول کے ایک ٹیچر نے بتایا کہ پچھلے سال ۲۰ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی کیونکہ انہیں جیل جانا پڑا تھا۔ ابو ہاشم کی طرح کئی ایسے تھے جن کی غیر حاضری۰ ۶ دن سے بھی زیادہ ہوگئی نتیجۃً انھیں دوبارہ اسی کلاس میں پڑھنا پڑا۔
موسی عواد جو مقامی ہائی اسکول میں ٹیچر ہیں بستی کے دیگر لوگوں کی طرح سنگ باری کو فخر اور اندیشے کے ملے جلے جذبات سے دیکھتے ہیں۔ سنگ باری کو مزاحمت کی علامت کی حیثیت سے فخریہ دیکھا جاتا ہے جبکہ گرفتاری اور بچوں پر ظلم و ستم کا خوف اندیشے بھی پیدا کرتا ہے۔ ’کسی کی مجال نہیں جو ان بچوں کو برا بھلا کہے یا آگے بڑھ کر ان سے پوچھ سکے کہ تم ایسا کیوں کر رہے ہو‘ (کیونکہ اب یہ ایک تہذیبی شعار بن چکا ہے)
ڈیفنس فور چلڈرن انٹر نیشنل نامی تنظیم نے جو بچوں کے حقوق کی وکالت کرتی ہے پچھلے سال ۳۶۰ ایسے فلسطینی بچوں کی ڈاکیومینٹری تیار کی تھی جن کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے ذریعہ انکشاف ہوا کہ اکثر بچوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئی تھیں، ان کی پٹائی کی گئی تھی اور تفتیش کے دوران انھیں بری طرح دھمکایا گیا تھا۔ زیادہ تر نے (فخر سے) اعتراف جرم کرلیا اور ان میں سے نوے فیصدی بچوں کو اسرائیلی فوجی جیلوں میں سزا کاٹنے کے لیے بھیج دیا گیا۔
نصری صبرؔنا جو انگریزی کے پروفیسر اور بیت لحم کے سابق میئر ہیں وہ سنگ باری میں اپنی پہلی گرفتاری کو بارہا یاد کرتے ہیں۔ ان کے آٹھ بچوں میں سے ایک ۲۱؍ سالہ احمد جو انجینئرنگ کا طالب علم ہے، جیل میں چھ ماہ کی سزا کاٹ رہا ہے۔ یہ اس کی چوتھی جیل یاترا ہے۔ (لیکن) جب سب سے چھوٹے بیٹے عبد اللہ نے اسکول سے چھٹی مارنا اور سنگ باری کرنا شروع کیا تو اس کے والد اسے ایک ماہر نفسیات کے پاس لے گئے۔ ’میں چاہتا ہوں کہ یہ بچہ اسکول جائے اپنا مستقبل سنوارے۔ مگر یہ (کمبخت یہودی قابضین) ہمیں مجبور کرتے اور انگیخت کرتے ہیں‘۔ عبد اللہ جواب دس سال کا ہوگیا ہے وہ اپنے ایک رشتہ دار کے ذریعہ پرندے دیکھنے کے لیے تحفہ میں دی گئی دوربین فوجیوں کی نقل و حرکت دیکھنے میں استعمال کرتا ہے۔ ’مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب میں فوجیوں پر پتھر پھینکتا ہوں‘۔ وہ کہتا ہے۔ ’(دراصل) یہ لوگ غاصب ہیں۔‘
ابو ہاشم کی کہانی اس علاقہ میں تضادات سے پر زندگی کی ایک مثال ہے۔ ابھی چند دن قبل ہی ایک رشتہ دار کی شادی میں شرکت کے لیے اس نے نیا بالوں کا اسٹائل بنوایا تھا۔ اور آج وہ زبردستی جیل کا کھانا گلے سے اتار رہا تھا۔ پچھلے ہی ہفتہ وہ منھ اندھیرے ایک مقبوضہ بستی میں گھس کر آڑو کی طرح کے پھل اٹھا لایا تھا۔ یہ پھل اس کے تھے کیونکہ یہ اس سر زمین میں پھلے تھے جوان کی تھی اور جو یہودیوں نے ان سے چھین لی تھی۔
اس کا ایک شوق یہ بھی ہے کہ وہ پرندوں کے ذریعہ چھوڑے ہوئے انڈے اکٹھا کرتا ہے اور پنجروں میں بلب کی روشنی سے ان کو گرماہٹ پہونچاتا ہے یہاں تک کہ اس سے چوزے نکل آتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ’ جب وہ اڑتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی قیدی جیل سے رہائی پاکر آزاد ہورہا ہو۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *