مجھے ڈر ہے دلِ زندہ کہ تو نہ مرجائے

قرآن و حدیث میں ’قلب‘کی اصطلاح بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔اس کے مطابق ہماری پوری شخصیت کا نام ’قلب‘ ہے۔بقول خرم مرادؒ ’یہ جسم فنا ہوجائے گا اور انسان کی روح جس کو قرآن مجید میں قلب بھی قرار دیا گیا ہے،باقی رہ جائے گی۔۔۔۔جن دوسرے معنوں میں قلب کا لفظ استعمال ہوا ہے، وہ ہماری خواہشات ہیں۔یہ خواہشات دنیوی چیزوں کے لیے بھی ہو سکتی ہیں، ان سے اعلیٰ چیزوں کے لیے بھی ہوسکتی ہے۔ ان خواہشات کا مرکز بھی قلب ہے۔‘انسان کی اصلاح و تربیت کا راستہ یہی قلب ہے۔ اگر قلب کی درستگی ہو گئی تو انسانی اعضا ء و جوارح بھی صحیح کام کریں گے،احکام اسلامی کی اطاعت، قوت اور استطاعت بھی اس کے اندر پیدا ہوگی،اور اس طرح پورا انسانی معاشرہ درست ہوجائے گا۔لیکن اگر قلب میں بگاڑ پیدا ہوگیا،تو نتیجہ میں جسم بگاڑ کا شکار ہوجائے گا، اعضاء و جواریح صحیح کام نہ کر سکیں گے اور احکام شریعت پر عمل نہ صرف ناممکن ہو جائے گا بلکہ شریعت میں بگاڑ کی کوشش ہوگی۔اس لیے خالق آدم نے اپنے آخری کلام حق میں انسانی قلب کے بگاڑ،اسباب،اس بگاڑ کے نتائج اور قلب کی اصلاح کی ضرورت اور اصلاح قلب کے اثرات انسانی معاشرہ پران تمام سے متعلق تفصیلی بحث کی ہے۔
اَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلاَ یَکُونُوا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِ فَطَالَ عَلَیْھِمْ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُھُمْ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ(حدید:۱۶)
’کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی کے لیے جھک جائیں اور (اس کے لیے)جو حق (اللہ)کی طرف سے نازل ہوا اور وہ ان لوگوں کے مانند نہ ہوں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی؟پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے بہت سے فاسق ہیں۔‘
آخری زمانے میں امت کے بگاڑ کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے اس امر کی خصوصی طور پر نشان دہی کی گئی ہے۔اس آیت کے تحت حضرت قتادہؓ نے فرمایا کہ ہمارے سامنے یہ بیان کیا گیا کہ حضرت شداد بن اوسؓ رسول اللہﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ آقائے دو جہاں فرماتے ہیں:’سب سے پہلے لوگوں سے خشوع اٹھالیا جائے گا۔‘(تفسیر در منثور آیت ذیل)
دلوں کی سختی کے باب میں صحابہ کرامؓ کس قدر حساس اور چوکنا تھے۔ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے قراء کو جمع کیا اور فرمایا:’تم میں قرآن جمع کرنے والوں کے (یعنی حفاظ قرآن)کے سوا کوئی داخل نہ ہو۔سو ہم تین سو آدمی اندر داخل ہوئے اور آپ نے ہمیں وعظ فرمایا، ارشاد فرمایا:’تم اس شہر کے قراء ہو۔قسم بخدا !تم پر زمانہ طویل ہوجائے گا اور تمہارے دل اسی طرح سخت ہوجائیں گے جیسے اہل کتاب کے دل سخت ہو گئے تھے۔‘(تفسیر در منثور آیت ذیل)شاید صحابی رسولﷺ کا یہ خدشہ ہمارے زمانے میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
دلوں کی زندگی کے متعلق قرآن مجید کن اصولوں سے نوازتا ہے،یہ بات مندرجہ ذیل آیات بتاتی ہیں۔
ذمہ دران تحریک کے لیے نرم خوئی کی اہمیت:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبَ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ(عمران:۱۵۹)
’پس(اے نبیﷺ!)آپ اللہ کی رحمت کے باعث ان کے لیے نرم ہوگئے۔اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو وہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔ ‘
گزشتہ اقوام جن گناہوں اور سرکشیوں کی بنا پر عذاب الٰہی کا شکار ہوئیں،ان کو بیان کرکے یہ نصیحت کی گئی:
اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْریٰ لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ اَوْ اَلْقٰی السَّمْعَ وَ ھُوَ شَہِیْدٌ(ق:۳۷)
’بلا شبہ اس میں اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو (آگاہ)دل رکھتا ہے یا وہ کان لگائے جب کہ وہ (دل و دماغ سے)حاضر ہو۔‘
(اس آیت کے ذیل میں)امام بخاری نے الادب المفرد میں حضرت علی بن ابی طالبؓ سے یہ قول بیان کیا ہے کہ’ بے شک عقل دل میں ہے،رحمت جگر میں ہے،مہربانی اور نرمی تلی میں ہے اور عظمت اور ہمت گردوں میں ہے۔‘
فی سبیل اللہ خرچ کے باوجود دلوں میں خشیت:
وَالَّذِیْنَ یُوْتُوْنَ مَا آتَوْا وَقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃً اَنَّھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رٰجِعُوْنَ(مومنون:۶۰)
’اور جو لوگ(اللہ کی راہ میں)دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں، تو اس طرح کہ ان کے دل خوف زدہ ہوتے ہیں کہ بے شک وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘
اس آیت کے ذیل میں یہ روایت ملتی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہﷺ ! ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَالَّذِیْنَ یُوْتُوْنَ مَا آتَوْا وَقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃًکیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو غلطیاں کرتے ہیں اور نافرمانی والے اعمال کرتے ہیں؟فرمایا نہیں بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، صدقہ کرتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں۔‘
ویران دلوں کے لیے اللہ کا ذکر ایسے ہی زندگی بخش ہوتا ہے جیسے خشک زمین کے لیے پانی۔قرآن مجید نے ذکر اللہ کو مومن کی صفت گردانا ہے۔بلکہ اللہ کے ذکر سے مومنین کے قلوب سکون و اطمینان حاصل کرتے ہیں اور بعض مقامات پر دلوں کی یہ حالت بیان کی کہ اللہ کے ذکر سے مومنین کے دل نرم ہوجاتے ہیں۔چنانچہ فرمایا:
اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ط اَلاَ بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(رعد:۲۸)
’جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں، آگاہ رہو!اللہ کے ذکر ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں۔‘
اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ (انفال:۲)
’سچے مومن تو صرف وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔‘
اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰباً مُتَشَابِھًا مَّثاَنِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ الْجُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ج ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ وَ قُلُوْبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِاللّٰہِ ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِی مَنْ یَّشآءُ ط وَ مَنْ یُضْلِلِ اللّٰہِ فَمَا لَہُ مِنْ ھَادٍ (زمر:۲۳)
’اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایک کتاب ہے باہم ملتی جلتی، بار بار دہرائی جانے والی،جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل اللہ کی یاد کی طرف نرم(ہوکر مائل )ہوجاتے ہیں، یہی اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس کے ذریعہ سے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔‘
ایک جگہ پر تو غافل دلوں کو جھنجوڑتے ہوئے فرمایا:
اَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِاللّٰہِ(حدید:۱۶)
’کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی کے لیے جھک جائیں۔‘
شعائر اسلام کی تعظیم دلوں کے تقوی کا ذریعہ ہے۔
ذٰلِکَ وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَاللّٰہِ فَأِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ(حج:۳۲)
’اور جو شخص اللہ کی (عظمت کی)نشانیوں کی تعظیم کرے، تو بلا شبہ یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔‘
قرآن مجید کس قسم کے لوگوں کے لیے اپنے اندر سامان ہدایت رکھتا ہے ؟اگر کوئی کلام الٰہی میں غور و فکر نہیں کرتا ہے تو ایسے دلوں کے لیے قرآن کیا کہتا ہے:
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا(محمد:۲۴)
’پھر کیا وہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟‘
محبوب خداﷺجن پر ہماری ہزارہا زندگیاں قربان……آپ سے محبت، آپ کا ادب،آپﷺ کی ہر ہر ادا پر عمل کے لیے دوڑنے والی زندگیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید کہتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْویٰ(حجرات:۳)
’بلا شبہ جولوگ رسول اللہﷺ کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقوی کے لیے پرکھ کر خالص کردیے۔‘
وَمَنْ یُوْقَ شُحَّ نَفْسِہِ فأُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(الحشر:۹)
’حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘
جسم و بدن کی اصلاح و تربیت کے باب میں امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:’بدن کی طرح دل بھی امراض کا شکار ہوتا ہے۔دل بیمار ہو تو اس کا علاج توبہ و استغفار ہے،جس طرح لوہا زنگ آلود ہوتا ہے اسی طرح دل بھی زنگ آلود ہوتا ہے۔دل کا زنگ ذکر الٰہی سے دور ہوتا ہے۔بدن کی طرح دل بھی برہنہ ہوتا ہے، اس کی ستر پوشی تقویٰ سے ہوتی ہے،جس طرح بدن پیاسا ہوتا ہے اسی طرح دل بھی تشنہ دہن ہوتا ہے۔اس کی تشنہ دہانی معرفت الٰہی و انابت و توکل کے پانی سے دور ہوتی ہے۔‘
(تابعین کا نظام تربیت ص ۵۰)
٭امام ابو سلیمان دارانیؒ فرماتے ہیں:
۱)اہل خوف کی مجلس میں شرکت کیا کرو،دل میں رقت پیدا ہوگی۔
۲)ہمیشہ غمگین رہا کرو،دل میں نور پیدا ہوگا۔
۳)غور و فکر سے کام لیتے رہو،چراغِ دل جل اٹھے گا۔
۴)اپنی خواہشات کا کہا نہ مانو،شیطان سے مامون رہوگے۔
۵)اعمال میں اخلاص پیدا کرو،اللہ کے نزدیک قابل دید ہوجائو گے۔
۶)اللہ کو دھیان میں رکھو،عفو ودرگزر تمہارا شیوہ بن جائے گا۔
۷)اللہ کا شکر ادا کرو،نعمتوں کی بہتات ہوگی۔(تابعین کا نظام تربیت،ص۸۵)
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *