اہل ایمان کے مابین اختلافات

مشیت ایزدی کے تحت عقلیں متفاوت اور قوت ادراک مختلف ہے، جس کی وجہ سے مختلف رائیں اور اجتہادات رونما ہوتے ہیں۔قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ کیاکہ لوگوں کے درمیان اختلافات اللہ تعالی کی ایک کائناتی سنت ہے۔اللہ تعالی فرماتاہے:
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَۙ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ وَ لِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ۔ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ
ترجمہ:بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے،اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی (آزادئی انتخاب و اختیار اور امتحان) کے لیے تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا۔ اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔ (ھود:118،119)
بہت سارے امور میں اللہ نے وسعت عطا کی ہے اور ان میں اختلافات کو اہل ایمان کےلیے کشادگی قرار دیاہے۔اس طرح کے مسائل وامور میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کے مابین بھی اختلافات رونما ہوئے،تو ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہےکہ ہم ایمانی اخوت کو تار تار کریں جو دین کی اہم ترین ضروریات میں سے ہے۔
شاطبی کہتے ہیں کہ تعاون اور اخوت ونرمی سے دین کی حفاظت ہوتی ہے اور افتراق وانتشار اور جھگڑا وفساد سے دین ضا‏‏ئع ہوتا ہے اور دین کی حفاظت کرنا شریعت کے اول ترین مقاصد میں سے ہے۔اور اللہ تعالی نے اہل ایمان کے درمیان اختلاف کے لیے اصول بتائے ہیں اور خوشگوار اختلاف کو وسعت کا دروازہ قراردیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر اپنے اصحاب سے فرمایا تھا کہ وہ بنوقریظہ پہنچنے تک عصر کی نماز ادا نہ کریں ابھی وہ راستے میں تھے کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا تو ان میں سے بعض نے کہاکہ ہم بنوقریظہ پہنچ کرہی نماز ادا کریں گے اور بعض نے کہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے مراد یہ تھی کہ ہم نماز کے لیے تاخیرنہ کریں بلکہ جلدی کریں، تو ہم کو نماز پڑھ لینی چاہیے۔ تو بعض نے نماز پڑھ لی اور بعض نے غروب آفتاب کے بعد بنوقریظہ پہنچ کر نماز اداکی۔
امام ابن قیم کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا ذکر کیا گیا تو آپؐ نے کسی پر نکیر نہیں کی۔ اور یہ واقعہ اگر ہمارے وقت میں رونما ہوتا تو اس کے لیے خون بہہ جاتے اور تلواریں بے نیام ہوجاتیں۔
یہ عظیم اور بلندو بالا آداب ہم سے کہاں رخصت ہوگئے جس کی تعلیم ہمیں نبی کریمﷺ نے دی تھی۔ واقعہ یہ ہےکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کے مابین بعض مسائل میں اختلافات تھے مگر وہ اپنی جگہ تھے۔ اسکے لیے انہوں نے ایمانی اخوت کو نہیں چھوڑا، جس کے بغیر ہم نہ تو دین کی، نہ جان اور نہ ہی وطن کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ اور دشمنوں کی سب سے بڑی خواہش یہی ہےکہ ہم آپس میں دست وگریباں رہیں اور باہم بغض وعناد کا شکار رہیں اور لڑائی جھگڑا کرتے رہیں۔
اختلافات کے آداب کے ذیل میں ہم صحابہ کرام کی دو مثالیں پیش کررہے ہیں:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مابین
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کتاب اللہ کے سب سے بڑے قاریوں اور سنت رسول کے سب سے بڑے عالموں میں شمار ہوتے تھے۔ صحابہ کرام انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بکثرت رہنے کی وجہ سے اہل بیت میں شمار کرتے تھے۔حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کچھ زمانے تک ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ کو اہل بیت میں سے سمجھتے تھے کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت زیادہ آتے جاتے تھے اور ان کے پاس رہتے تھے۔ حضرت ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو اس آنے والے شخص سے زیادہ قرآن کا جاننے والا چھوڑا ہو۔تو حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہاکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوری میں حاضر ہوتے تھے جب ہم سب غائب ہوتے تھے، اور انہیں اجازت ہوتی تھی جب کہ ہمیں روک دیا جاتا تھا۔
دوسری طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی فقہ اور جلالت شان میں معروف ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کچھ اعمال میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےافراد میں سے ایک تھے۔ بہت سے اجتہادات میں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی، حتی کہ فقہ اسلامی کے مورخین نے انہیں صحابہ کرام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سب سے زیادہ متاثر مانا ہے۔ اور دونوں حضرات اکثر اپنے اجتہادات اور طریقہ استدلال میں متفق بھی تھے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اکثر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مسلک کی طرف بعض مسائل میں رجوع بھی کیا ہے مثال کے طور پر دادا اور بھائی کی تقسیم وراثت کے مسئلہ میں کبھی ثلث اور کبھی سدس کی طرف۔ پھر بھی دونوں نے کئی مسائل میں اختلاف بھی کیا ہے۔ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حالت رکوع میں اپنے دونوں ہاتھوں کی تطبیق کرتے تھے۔اور انہیں گھٹنوں پر رکھنے سے روکتے تھے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں گھٹنوں پر رکھتے تھے اور تطبیق سے روکتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر کوئي اپنی بیوی سے کہہ دے کہ “تم مجھ پر حرام ہو”تویہ قسم ہے۔جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ یہ ایک طلاق ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ جوشخص کسی عورت سے زنا کرے پھر اس سے شادی کرلے تو جب تک یہ دونوں ساتھ رہیں، زنا کارہوں گے۔جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ پہلی حالت میں زنا ہوگا اور دوسری حالت کو وہ نکاح مانتے تھے۔
علامہ ابن قیم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان سو سے زائد مختلف فیہ مسائل شمار کیے ہیں۔ لیکن اس قدر اختلاف کے باوجود ایک کے نزدیک دوسرے کی محبت وچاہت میں کوئي کمی نہیں آئی اور نہ ایک دوسرے کے احترام وتعلق اور دوستی میں کوئي کمزوری آئي۔
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس دو شخص تشریف لائے، ایک نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے علم حاصل کیا تھا اور دوسرے نے کسی اور صحابی سے سیکھا تھا۔ تو جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پڑھا تھا وہ کہنے لگاکہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے پڑھایا ہے۔یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رونے لگے، یہاں تک کہ کنکریاں آنسوؤں سے تر ہوگئيں اور فرمانے لگے کہ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پڑھایا ہے ویسے ہی پڑھو، کیونکہ وہ اسلام کا ایسا مضبوط قلعہ تھے جس میں داخل ہوکر لوگ نکلتے نہیں تھے، لیکن جب ان کی شہادت ہوگئی تو قلعہ میں شگاف پڑگیا۔
اسی طرح ایک دن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آرہے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے، جب انہیں آتے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ علم وفقہ سے لبریز ہیں۔اور ایک روایت میں ہےکہ آپ نے فرمایا کہ یہ علم سے لبریز ہیں۔ میں نے ان کو قادسیہ کے مجاہدین کے حوالے کر دیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نظریہ یہ تھا۔اور بعض مسائل میں اختلافات نے ان کے آپس کے احترام ومحبت میں اضافہ ہی کیا تھا۔ہم ان واقعات سے ایسے تمام آداب کا استنباط کر سکتے ہیں جو اختلافی معاملات میں مشعلِ راہ ہوں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مابین:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا مسلک بھی یہی تھا کہ میراث میں باپ ہی کے مانند دادا بھی تمام بھائیوں اور بہنوں کو ساقط کردیتا ہے۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کے مانند زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا مسلک یہ تھا کہ بھائي دادا کے ساتھ وارث ہوتے ہیں اور وہ اس کی وجہ سے محجوب نہیں ہوتے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک روز کہا کہ تعجب ہے، زید بن ثابت کو اللہ کا خوف نہیں، بیٹے کے بیٹے یعنی پوتے کو بیٹا بناتے ہیں اور باپ کے باپ یعنی دادا کو باپ نہیں بناتے۔بلکہ ایک روز حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے کہ میں چاہتاہوں کہ میں اور وہ لوگ جو میراث کے اس مسئلہ میں میری مخالفت کرتے ہیں، یکجا ہوں اور اپنا ہاتھ حجر اسود پر رکھ کرمباہلہ کریں اور جھوٹے پر اللہ کی لعنت کریں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جن کو اپنے اجتہاد کی صحت اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کی چوک پر اس قدر اعتماد تھا ایک روز حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو سواری پر دیکھا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی رکاب پکڑلی اور لےکر چلنے لگے۔اس پر حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اےعم زادِ رسول! چھوڑیے، تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: ہمیں اپنے علماء اور بڑوں کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیاگيا ہے۔ پھر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا مجھے اپنا ہاتھ دکھائیے، توحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنا ہاتھ نکالا توحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے چوم لیا اور فرمایا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کے ساتھ یہی کرنے کا حکم دیاہے۔
جب حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا توحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایسے ہی علم کا خاتمہ ہوگا۔بلکہ سنن بیہقی کبری کی روایت میں ہےکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایسے ہی علم کا خاتمہ ہوتا ہے۔آج بہت سارا علم دفن کردیاگیا۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *