آزادی کی خاطرفلسطینی بچے اور خواتین سینہ سپر

فلسطین بھر میں [آج] پانچ اپریل بروز ہفتہ بچوں کا قومی دن منایا جا رہا ہے۔ یوم اطفال کی مناسبت سے بچوں کی عالمی تنظیم کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید کم فلسطینیوں کی تعداد 230 تک جا پہنچی ہے۔ رپورٹ کے مطابق فلسطین کے 12 سے 17 سال کے عمر کے 700بچوں کو حراست میں لیے جانے کے بعد پولیس اور فوجی مراکز میں ان سے تفتیش کی جاتی ہے۔ ان میں سے بعض کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے اور کچھ بغیر کسی مقدمہ کا سامنا کیے کئی کئی ماہ تک جیلوں میں بند رہتے ہیں۔
پورٹ کے مطابق گذشتہ برس فلسطینی شہروں میں اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں پانچ بچے شہید ہوئے جبکہ رواں سال کے پہلے تین ماہ میں دو بچوں کو گولیاں مار کر شہید کیا جا چکا ہے۔ رواں سال بچوں کی ہلاکت کے دل سوز واقعات میں الخلیل کے دیرالعسل قصبے سے تعلق رکھنے والے پندرہ سالہ یوسف الشوامرہ بھی شامل ہے جسے اسرائیلی فوجیوں نے اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا جب وہ اپنا اور اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری کر رہا تھا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2013ء کے دوران 18 سال سے کم عمر 199 بچوں کو گرفتار کر جیلوں میں ڈالا گیا۔ فروری 2014ء کے آخر تک سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد دو سو تیس تک جا پہنچی ہے۔
تنظیم نے کم سن فلسطینی بچوں کے ساتھ روا رکھنے والے ناروا سلوک پر صہیونی ریاست اور اس کے سیکیورٹی اداروں کے کردار پر کڑی تنقید کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی بچوں سے ان کے جینے کا حق بھی سلب کر لیا ہے۔ بیت المقدس، مغربی کنارے کے شہری علاقوں اور دیہات میں فلسطینی مکانات کی مسماری اور ان کی املاک پر غاصبانہ قبضے جیسے واقعات نے نہ صرف فلسطینیوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے، جسے دوسرے معنوں میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے قرار دیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں اسرائیلی پولیس کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمارکا حوالہ بھی دیا ہے۔ آٹھ جنوری کو جاری کردہ پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران فوج اور پولیس کے اصلاحی مراکز میں 2451 بچوں کو اصلاحی مراحل سے گذارا گیا ہے۔
اسرائیل کی فلسطینی نونہالوں کے خلاف جارحیت کے بعض واقعات نہایت افسردہ اور دل دہلا دینے والے ہیں۔ ان ہزاروں واقعات میں محمد جمال الدرہ کی شہادت کے واقعے کو فلسطینی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 30 ستمبر 2000ء کو یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ننھے جمال الدرہ کو اس کے والد کے بازؤں میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ بچے کو اس وقت گولیاں ماری گئی ہیں جب وہ گولی سے بچنے کے لیے اپنے والی کے پیچھے چھپ کے بیٹھا تھا۔
فلسطینی اسیرہ لینا جربونی کے صبرو استقامت کو الشیخ رائد کا خراج تحسین
رام اللہ۔۔۔ مرکز اطلاعات فلسطین: فلسطین کے سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی فلسطینی اسیرہ لینا الجربونی اور اس کے خاندان کے صبرو استقامت پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب اسیرہ لینا اور دیگر اسیران کی رہائی سے انکار کر کے فلسطینی اتھارٹی پر بنیادی مطالبات سے دستبرداری کے لیے دباؤ ڈالنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ وہ لینا اور اس کے اہل خانہ کے صبر واستقامت کو سلام پیش کرتے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق الشیخ رائد صلاح نے عکا شہر میں لینا جربونی کے گھر کے باہر اس کی رہائی کے حوالے سے لگائے گئے یکجہتی کیمپ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے شہریوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی امریکی سازش کے تحت فلسطینی اسیران کے معاملے کو مذاکرات میں بنیادی قومی مطالبات سے دستبرداری کے لیے دباؤ کے ایک حربے کے طورپر استعمال کیا جا رہا ہے تاہم صہیونی ریاست اور امریکیوں کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
اس موقع پر انہوں نے لینا جربونی کی دیگر ہمیشراؤں اور اہل خانہ سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے لینا کی بہنوں، والدین، بھائیوں کی جانب سے پیاری لینا کی رہائی کے لیے صبر سے کوششیں کرنے پر ان کی تعریف کی۔ انہوں نے امید ظاہر کی لینا جلد صہیون استبدادی پنجے سے آزاد ہو کر اپنے خاندان میں شامل ہوجائے گی۔
خیال رہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان جاری امن مذاکرات کے نتیجے میں اسرائیل نے جن 104 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا ان میں لینا کا نام شام کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں، امکان تھا کہ رہائی پانے والوں کی چوتھی کھیپ میں لینا بھی رہا ہو جائے گی لیکن صہیونی ریاست نے تین مراحل میں78 فلسطینی رہا کیے اور باقی کو رہا کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد لینا کے خاندان کو بھی سخت مایوسی ہوئی ہے۔
لینا کا تعلق شمالی فلسطین کے شہر عکا سے ہے اسے 10 سال قبل آبائی شہر ہی سے اس کے گھر سے اغواء کیا گیا۔ صہیونی عدالت میں اس پر فلسطینی مزاحمت کاروں کو پناہ دینے اور ان کی مدد کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت نے اس جعلی مقدمے میں لینا کو سترہ سال قید کی سزا سنائی۔ لینا سترہ میں سے دس سال قید کاٹ چکی ہے۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *