لہو کی مہندی

مکہ کے کافر اپنی طاقت سے مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ بدر کی شکست وہ اب تک نہیں بھولے تھے اور انتقام کی آگ نے جیسے انہیں پاگل سا کر دیا تھا ازسر تاپالوہے میں لدے ہوئے ان کے بہادر نوجوان ہمیشہ کے لیے اسلام کے نام لیواؤں کا نام ونشان مٹانے آئے تھے۔
مدینہ کی تقریبا ساری آبادی سمٹ کر دشمن کے مقابلے پر چلی گئی تھی کیا بوڑھے اور کیا نوجوان رافع اور سمرہ جیسے چھوٹے چھوٹے بچوں نے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اپنے کو ایک دراز قد نوجوان باور کرایا تھا اور سمرہ نے رافع کو کشتی میں پچھاڑ کر لشکر اسلام میں داخلہ کی اجازت حاصل کی تھی۔
مدینہ کی بوڑھیوں اور بچوں کے ہاتھ خدا کے دربار میں اٹھے ہوئے تھے۔ وہ ہاتھ پھیلا پھیلا کر اپنے بچوں اور بھائیوں کے فتح مند واپس لوٹنے کی دعائیں مانگ رہی تھیں۔ آج صرف مدینہ کی نہیں بلکہ اسلام کی عزت کا سوال تھا۔
اوریہ کیسا اتفاق تھا کہ ایسے ماحول میں حنظلہؓ کی شادی ہو رہی تھی۔ خوبصورت اور سجیلے حنظلہؓ دولہا بنے ہوئے تھے۔ معصومیت اور بھولے پن نے ان کی کچی جوانی کو ایک عجیب سا نکھار عطا کر دیا تھا۔
تھوڑی ہی دیر بعد حنظلہؓ اپنی نئی نویلی دلہن سے بات کرنے چلے گئے تھے، زندگی کے نئے سفر میں اپنے نئے ہمراہی کو ابھی وہ سمجھنے ہی کی کوشش کر رہے تھے۔ نئی نویلی دلہن کی نظریں بار بار شرم سے جھک جاتی تھیں۔ حنظلہؓ کے روپ میں اسے کیا پیارا شریک زندگی ملا تھا۔ جس کے چہرے پر قربان ہونے کو جی چاہتا تھا کیسی پیاری شخصیت تھی، جی چاہتا تھا بس دیکھتے ہی جائیں ایک ٹک پلک بھی نہ ماریں یوں ہی گذرجائے یہ ساری زندگی اور باتوں کا یہ تسلسل کبھی ختم نہ ہو۔
وقت دھیرے دھیرے سرکتا رہا۔ حنظلہؓ اور ان کی دلہن آنے والی زندگی کے سنہرے خوابوں میں گم۔ نئے نئے عہد و پیمان کرتے رہے۔ نئے نئے منصوبے بناتے رہے اور اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتی دلہن سرکے ہلکے ہلکے اشاروں سے حنظلہؓ کے سوالوں کا جواب دیتی رہی۔
حنظلہؓ کے سرخ و سپید چہرے پر طمانیت کا رنگ کسی مشعل کی طرح جھلملاتارہا اور آنکھوں میں خوابوں کی پرچھائیاں لرزتی رہیں۔
وقت گذرتا رہا۔لمحے، منٹ، گھنٹے۔ حنظلہؓ غسل کے لیے اٹھ گئے۔کپڑے اتار کر انہوں نے سر پر پانی کا پہلا پیالہ انڈیلا۔ تب ہی کوئی کہتاہواگذر گیا۔
’شکست زبردست شکست، احد کے میدان میں مسلمانوں کو زبردست شکست ہو رہی ہے۔ حضورؐ شہید ہو گئے ہیں۔‘
حنظلہؓ کا سارا جسم جھنجھنا اٹھا۔ وہاں لشکر اسلام پر آفت ٹوٹ رہی ہے۔ یہاں وہ اپنی دلہن سے لگے بیٹھے ہیں۔ جیسے کہ ایک اندھیرا ساان کی آنکھوں میں چھا گیا۔
وہ اسی طرح کھڑے ہوگئے۔ سر کے بال اوپر اوپر سے بھیگ گئے تھے۔ کمرے سے انہوں نے اپنی تلوار اٹھائی۔ نیام سے نکال کر سونتی۔ ایک زخمی سی الوداعی نظر اپنی دلہن پر ڈالی۔
نئی دلہن نے گھونگھٹ الٹ کر دیکھا۔ اس کا سرتاج جہاد کے جوش میں سرشار ہو کر کچھ اور بھی خوبصورت دکھائی دینے لگاتھا۔ اس نے بہت کچھ کہنا چاہا۔ لیکن لفظ اس کے ہونٹوں میں ٹوٹ ٹوٹ کر رہ گئے۔ آنسوؤں کی دھاریں موٹی موٹی آنکھوں سے برس پڑیں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اچانک حالات نے یہ کون سی کروٹ لی ہے۔
’خدا حافظ سرتاج۔‘ لرزتی ہوئی آواز میں دھیرے سے وہ اتنا ہی کہہ سکی۔
’خدا حافظ۔‘مضبوط آواز میں حنظلہؓ نے کہا اور ایک لمحے کی تاخیر کیے بنامیدان احد کی طرف بھاگتے چلے گئے۔ دوپہر کی آگ میں تپتا ہوا احد کا یہ میدان ا نہیں اس وقت پھولوں کی سیج سے بھی پیارا لگنے لگا تھا۔
شام کے سائے پھیلنے لگے تھے۔ احد کے میدان پر بھی سناٹا چھا گیا تھا۔ نہ جانے کتنے انصار اور مہاجروں کی لاشیں خاک وخون میں لتھڑی پڑی تھیں۔
ان ہی میں ایک طرف نئے دولہا حنظلہؓ کی لاش بھی پڑی ہوئی تھی۔ ان کے جسم پر نہ جانے کتنے زخم تھے۔ سارا جسم لہولہوہو گیا تھا۔
اپنے خون میں ڈوبے ہوئے حنظلہؓ اب بھی مسکرا تے ہوئے لگ رہے تھے۔ جیسے گویا سچ مچ کے دولہا تو وہ اب ہوں۔
ان کی نئی نویلی دلہن پھولوں کی سیج پر ان کا انتظار کرتی رہ گئی۔ اس کی آنکھیں دروازے پر ہی لگی رہ گئیں کم از کم اپنا غسل پورا کرنے تو وہ ضرور آئیں گے۔
لیکن حنظلہؓ غسل کیا کرتے۔ وہ تو لہو سے ہی غسل کر چکے تھے۔ اسی لیے تو ان کو دفنانے سے پہلے غسل بھی نہ دیا گیا جو ہر میت کو دیا جاتا ہے۔
مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے حضورؐ اشک بار آنکھوں سے کہہ رہے تھے۔
’کیا ہوا حنظلہؓ اگر اپنا غسل پورا نہ کر سکے۔ سچ میں دیکھ رہا ہوں خدا کے مقدس فرشتے حنظلہؓ کو غسل دے رہے ہیں۔‘
حنظلہؓ کے دوست ابو سعیدؓ ساعدی افتاں خیزاں اپنے ساتھی حنظلہؓ کو دیکھنے احد کے میدان میں پہنچ گئے۔ حنظلہؓ کے ماتھے پر پسینے کی سی ننھی ننھی بوندیں بکھری ہوئی تھیں، لگ رہا تھا حنظلہؓ موتیوں کا کوئی تاج پہنے ہوں۔
حنظلہؓ کے ہونٹوں پرکتنی بھرپور مسکراہٹ تھی، کیسا اطمینان تھا! ابو سعید ساعدی پیار بھری نگاہوں سے نہ جانے کب تک حنظلہؓ کو تکتے رہے۔ آج سے پہلے ایسا خوبصورت دولہا انہوں نے کبھی بھی تو نہیں دیکھا تھا۔

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *