رمضان کی آمد

رمضان کا مہینہ جیسے جیسے قریب آتا ہے لوگوں میں مختلف نوعیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں رمضان کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ نہ روزہ رکھتے ہیں ،نہ دیگر عبادات کے جھمیلے میں پڑتے ہیں۔ گھر کے کسی فرد نے روزہ رکھ لیا تو وہ اس کے ساتھ افطاری میں شریک ہو جاتے ہیں۔ باہر بھی افطار پارٹی میں شرکت کا موقع ملا تو سماجی پہلو سے یا پھر افطار سے اپنا حصہ وصول کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ البتہ عید یہ لوگ بہت اہتمام سے مناتے ہیں۔ عید کی رات اگر خرمستیوں میں کالی نہ کی ہو تو عید کی نماز پڑھ کر مسجد میں سالانہ حاضری کی رسم بھی پوری کر لیتے ہیں ۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو رمضان میں چار و ناچار روزہ رکھتے ہیں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ مشقت اور تنگی کا مہینہ آرہا ہے ۔سخت گرمی میں پیاس کی مشقت اور بھوک کی تکلیف جھیلنی پڑے گی ،راتوں کی نیند خراب ہوگی، کاروبار حیات متاثر اور معمولاتِ زندگی درہم برہم ہو جائیں گے ،ایسے لوگ رمضان کا ایک ایک دِن گن کر مہینہ پورا کرتے ہیں۔ آخر کار اس مہینہ کے خاتمہ پر ان کی یہ سالانہ مشقت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ جیسے رمضان سے پہلے تھے ویسے ہی رمضان کے بعد رہتے ہیں۔
ایک تیسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو رمضان کے روزے ذوق و شوق سے رکھتے ہیں ،تلاوتِ قرآن، نوافل اور دیگر عبادات کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ روزہ کی مشقت تو خیر انہیں بھی محسوس ہوتی ہے مگر وہ اُسے حوصلے سے برداشت کرتے ہیں۔ وہ امید رکھتے ہیں کہ اِس مشقت کے بدلے میں جو اجر انہیں ملے گا اس کے مقابلہ میں یہ تکلیف کچھ بھی نہیں۔ اُمّید ہے کہ ایسے صالحین اللہ سے اپنی محنت کا بہترین اجر پائیں گے۔
چوتھی قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو رمضان کے آنے سے قبل ہی رمضان کے انتظار میں ڈھل جاتے ہیں۔وہ شعبان کے مہینے کا ایک ایک دِن گزارتے ہیں۔ اُن کی عید اس دن سے ہی شروع ہو جاتی ہے جب رمضان کا چاند طلوع ہوتا ہے۔ تیسرے گروہ کی طرح یہ لوگ بھی روزہ کی مشقت خوش دلی سے جھیلتے اور عبادات میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں، مگر ان کا اصل امتیاز یہ ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ اُن کے لئے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا مہینہ بن جاتا ہے۔ روزہ کی ایک ایک مشقت اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا تعارف بن جاتی ہے۔
جب پیاس کی شدت سے حلق میں کانٹے پڑنے لگتے ہیں تو وہ اپنے رَب کو پکارتے ہیں کہ مالک ایک ایسی کائنات میں جہاں پانی کا ایک قطرہ نہیں تونے اس کرّہ ارض کو پانی کا گہوارا بنا دیا۔ مالک تو ساری زندگی ہمیں پانی پلاتا ہے مگر ہم نہ جان سکے کہ یہ پانی کیسی نعمت ہے، آج جب حلق میں کانٹے پڑے تو معلوم ہوا کہ یہ بے ضائقہ مشروب کائنات کے ہر ذائقے سے بڑھ کر ہے۔ ہم اس نعمت کے لئے شکر گزار ہیں۔
جب بھوک سے ان کا وجود نڈھال ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ آقا تو سورج ، بادل، ہوا، سمندر ،پہاڑ، دریا اور زمین سب کو ملاکر ہمارے لئے غذا فراہم کرتا ہے۔ جس دنیا میں ہزاروں قسم کے حیوانات کے لئے صرف بے ذائقہ گھاس اگتی ہے وہاں تونے ایک انسان کے لئے ہزارہا قسم کے ذائقے تخلیق کر دئیے۔ ہم دِل کی گہرائیوں سے تیری عظمت و عنایت کی معترف ہیں۔
غرض روزہ کی ہر مشقت اور بے آرامی اُن کے لئے معرفت الٰہی کے نئے دروازے کھول دیتی ہے۔ کھانے پینے کی محرومی اُن پر یہ واضح کر دیتی ہے کہ اِن جیسی لاکھوں نعمتوں میں وہ ہر لمحہ جی رہے ہیں۔ اس احساس سے اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ ان کا سینہ خدائی احساسات کی تجلیوں سے جگمگا اٹھتا ہے۔ ان کی راتیں ذکر الٰہی سے منور ہو جاتی ہیں۔ ان کا وجود اس خدائی جنت کے لئے سراپا طلب بن جاتا ہے جہاں کوئی بھوک ہوگی نہ پیاس۔ جہاں ہر نعمت بے روک ٹوک اور بے حد و حساب ملا کرے گی،جہاں سے وہ نکلنا چاہیں گے اور نہ کوئی انہیں نکالے گا۔
وہ اس جہنم کے تصور سے لرز جاتے ہیں جہاں محرومی کی ہر ممکنہ شکل جمع کر دی جائیگی۔ جہاں خدا کے مجرم ، سرکش اور غافل ابد تک خود پر پچھتاؤں کی سنگ باری کرتے رہیں گے کہ کیسا عظیم موقع انہوں نے گنوادیا ۔جہاں وہ ہمیشہ ندامت کے اشکوں کے سیلاب بہاتے رہیں گے کہ انہوں نے کیسے مہربان رب کو پایا اور کس بے دردی سے اُسے بھلا دیا۔
یہ اہلِ ایمان روزہ کی حالت میں اس جہنم سے اپنے رب کی پناہ مانگتے رہتے ہیں۔ وہ اپنی خطاؤں پر شرمسار رہتے ہیں۔ وہ سراپا احتساب بن کر اپنی سیرت و کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ عملِ صالح کی ہر شکل کو اپنے وجود کا حصہ بنانے کا عظم کرتے ہیں۔ وہ مصیبت کی ہر قسم کو زہریلا سانپ سمجھ کر اس سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے رمضان میں اپنے رب سے ملاقات کر لی ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے جان لیا کہ اللہ معبود حقیقی بھی ہے اور منعم حقیقی بھی۔
وہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لائق زباں اور دِل کی شہادت کے لائق
اُسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق
لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ جھکاؤ تو سر اُس کے آگے جھکاؤ
خدا کو اسی طرح پانے والے درحقیقت رمضان کو پانے والے ہیں۔ یہی مقربین ہیں ،دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔

قابل احترام بھائیو وبہنوں!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
امید کے مزاجِ گرامی بخیر ہوگا۔ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہوں گے۔
٭ رمضان المبارک کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے جا رہا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ شعبان سے ہی اس کی تیاری کا آغاز فرماتے تھے اور لوگوں کو بیدار کرتے تھے۔ اس مہینہ سے استفادہ کے لئے آپ ﷺ کی کئی احادیث ہمیں ملتی ہیں۔
٭ امیر محترم مولانا عطاء الرحمن وجدی ؔ نے مشاورت کے بعد مندرجہ ذیل امور کی جانب توجہ دلائی ہے ،جو رمضان المبارک سے متعلق ہیں۔ اس سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہوں۔ رمضان المبارک ماہ نزولِ قرآن ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے، جو جامع ہدایت و رہنمائی ہے۔ اللہ سے قربت کا سب سے بہترین ذریعہ اور اس کے ذکر کا آسان طریقہ ہے ۔ اس ماہ تلاوتِ قرآن کا خاص اہتمام فرمائیں۔ کوشش کریں کہ کم از کم ایک مرتبہ مع ترجمہ مکمل ہو جائے۔
٭ قرآن سے استفادہ کی یوں تو بہت سی شکلیں ہیں جیسے ہفت روزہ دروس، ماہوار اجتماعی مطالعہ قرآن ،تجوید و عربی زبان کی کلاسیز۔ لیکن رمضان المبارک میں اسے خاص توجہ و اہتمام سے استفادہ کی ضرورت ہے۔ بالخصوص آخری عشرہ میں اجتماعی مطالعہ کا نظم ہر مقام پر کریں۔ اس بار پورے رمضان میں خصوصی مطالعہ کے لئے سورۃ القصص خاص کی گئی ہے۔ ہر بھائی ؍بہن کی کوشش ہونی چاہئے کہ اس نصابِ رمضان کو مختلف تفاسیر و معتبر علماء کی رہنمائی میں مکمل کر لیں ۔ جہاں ممکن ہو بعد نمازِ تراویح خلاصہ آیات پیش کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
٭ رمضان المبارک کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھے جائیں۔ اس میں راتوں کا اٹھنا اور قیام کرنا بندے کے لئے مغفرت و نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ کوشش کریں کہ قیام لیل کا اہتمام ہو۔ اللہ کے حضور گریہ و زاری ،مناجات و دعاؤں کا ،اپنے لئے، اپنوں کے لئے ،تحریک کے لئے، تحریکاتِ اسلامی کے لئے، اُمت مسلمہ کے لئے ،بالخصوص مظلومین کے لئے خوب اہتمام فرمائیں۔
٭ رمضان المبارک ہمیں دوسروں کی ضروریات کا احساس دلاتا ہے، لیکن انسانوں کی بڑی تعداد ان چیزوں سے محروم زندگی گزارتی ہے۔ ان کا پاس و خیال رکھنا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کرناہے۔ کبھی زکوٰۃ کی مد سے تو کبھی انفاق فی سبیل اللہ کی دیگر مدات سے،کبھی میٹھے بول کے ذریعے تو کبھی ہمدردی، حسنِ سلوک کے ذریعے۔ بالخصوص ان لوگوں کو اور ان کے خاندانوں اور رشتے داروں کا خاص خیال رکھیں جنہیں وقت کے نظام نے اسیری و بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔قرآن کریم میں گردنوں کو چھڑانے کی مد کا خاص اہتمام کیا ہے۔
٭ امت میں رمضان المبارک سے استفادہ کے احساس کو بیدار کرنے کے لئے رمضان سے قبل ’’استقبال رمضان‘‘ کے پروگرام کئے جا سکتے ہیں، احادیث پر مبنی ہورڈنگس لگائی جا سکتی ہیں، فولڈر، پمفلٹ وغیرہ تقسیم کئے جا سکتے ہیں جس میں تعلق باللہ، استقامت اور انفاق پر اُمّت کو متوجہ کیا جا سکے۔
٭ ملکی و عالمی تبدیلیوں کے افق سے روز بروز اندیشوں کا ایک طوفان اُمڈ رہا ہے۔ کہیں اس کا ادراک ہی نہیں ہے تو کہیں خوف و مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ ان حالات میں تاریخ اسلامی کے روشن ابواب یوم الفرقان (17؍رمضان المبارک) یوم الفتح (فتح مکہ ،20رمضان المبارک) پر خصوصی پروگرام منعقد کئے جائیں تاکہ امّت مظلوم کے اندر ہمت و حوصلوں کی آبیاری ہو سکے۔
٭ ذاتی تربیت کا انتہائی مفید و روحانی طریقہ اعتکاف ہے۔ اس کے لئے پہلے سے وقت فارغ کرکے اس سے استفادہ کریں۔
٭ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ، اذکار مسنونہ، بالخصوص استغفار کی کثرت کو معمول بنائیں۔
والسلام
ضیاء الدین صدیقی
معتمد عمومی، وحدتِ اسلامی

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *