ٓماضی کے دریچوں سے: فلسطین

ہمارا دشمن نیست و نابود ہوجائے گا آنے والی تین دہائیوں کے دوران ، انشاء اللہ

                لندن کے مجلہ ’’الوسط‘‘ نے ۱۸؍جنوری ۹۸ئ؁ کے شمارہ میں شیخ احمد یاسین کا ایک تفصیلی انٹرویو نشر کیا تھا جس کے بعض حصے درج ذیل ہیں۔

س۔           اہداف کے حصول اور منزل تک پہنچنے میں ابھی کتنی دیر لگے گی؟

ج۔            میں اس سلسلے میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں اور ایک مدت متعین کردی ہے ان شاء اللہ آنے والی تین دہائیوں میں ہمارا دشمن ختم ہو جائے گا۔ یہ آخری حد ہے۔

س۔           آخر وہ کون سی بنیادیں ہیں جن کی بنا پر آپ یہ یقین رکھتے ہیں؟

ج۔            یقین کی یہ روشنی مجھے قرآنی آیتوں سے حاصل ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں اور امتوں کے لئے میزان اور وقت مقرر کر رکھا ہے۔

                خود اسرائیلی اور فلسطینی جنگ سے بھی یہی محسوس کرتا ہوں کہ جب بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے داخل ہوجاؤ کہاتو انہوں نے انکار کیا اور پیغمبر موسیٰؑ سے یہ کہا ’’فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھاھنا قاعدون، قال ربی انی لا املک الا نفسی واخی فافرق بیننا وبین القوم الفاسقین، قال فانہا محرمۃ علیہم اربعین سنۃ یتیہون فی الاض۔‘‘

                اسی وقت چالیس سال کی مدت طے کر دی تھی گویا اس امت کی ایک نئی نسل کو لانے کا فیصلہ کیا تھا یعنی بزدل غیر جنگجو نسل چلی جائے صحرانوردی کرے اور ایک تازہ دم نئی مضبوط و مستعد نسل آئے اور اندر پہنچ کر جنگ کرے۔

                گویا سماج کے اندر نفسیاتی اور اجتماعی تبدیلی میں ۴۰ سال لگتے ہیں، ۱۹۴۸ میں فلسطینی گوہار گئے شکست کھا گئے اور انکی بیشتر آبادی ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور انہیں دربدر ہونا پڑا اور ۱۹۸۸ئ؁ میں چالیس سال بعد انتفاضہ میں ایک نیا معرکہ شرو ع ہوا جس نے پچھلی نسبت بدل ڈالی اور جو کچھ توازن اور صورت حال ہے آپ کے سامنے ہے، فلسطینی عوام آئندہ چالیس سال میں آزادی سے ہم کنار ہو جائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ آنے والے چالیس سال جس میں تقریباً ۱۰ سال گزر چکے ہیں اور صرف ۳۰ سال باقی رہ گئے ہیں اور میرے اندازہ کے مطابق ۲۷ ہی سال بچے ہیں جبکہ اسرائیل کا خاتمہ ہوگا اگر چہ ہمارے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ مدت بس ۱۸۔۲۴ سال ہی رہ گئی ہے اور وہ ریاضی انداز میں بات رکھتے ہیں مجھے فن ریاضی سے واسطہ نہیں میں تو روحانی انداز میں مستقبل محسوس کر رہا ہوں اور آیات قرآنی سے یہ سمجھ رہا ہوں۔

                یہ ہے وہ بنیادی تصور جس کی بنا پر میں کہتا ہوں کہ تین دہائیوں میں اسرائیل کا وجود نہیں ہوگا ۔ اسلامی تاریخ میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے ایک قدیم عالم نے جن کا نام ذہن میں نہیں نور الدین محمود زنگی کے عہد میں اس طرح کی دعوت دی تھی اور ایک متعین وقت کا اعلان کیا تھا کہ فلاں تاریخ میں قدس آزاد ہو جائے گا اسی بنیاد پر نور الدین زنگی حد درجہ شائق تھے کہ وہی فتح کا سہرا حاصل کریں اور اسکی انہوں نے پوری کوشش بھی کی اسی کے پیش نظر انہوں نے مسجد اقصی کے لئے منبر تیار کیا لیکن اللہ کو منظور نہیں تھا چنانچہ ان کی وفات ہو گئی اور اس خواب کی تکمیل ان کے بعد صلاح الدین ؒ کے ہاتھوں ہوئی اور اسی متعین تاریخ میں قدس آزادی سے ہمکنار ہوا۔

س۔           بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دوسری معاصر تنظیموں کے مقابلہ میں کافی تاخیر سے آپ لوگ ایک عسکری فکر و عمل رکھنے والی تحریک کی حیثیت سے ظاہر ہوئے۔ آخر اس سیاسی طریقہ کار اختیار کرنے سے قبل ایک لمبی مدت کیوں صرف کی؟

ج۔            یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے، پہلی بات یہ ہے کہ ہم مسلم امت کے افراد ہیں اور ایک عالمی تحریک ’’الاخوان المسلمون‘‘ کے جز ہیں اور ماضی میں ان کے ہتھیار اور آلاتِ حرب فلسطین میں موجود رہے ہیں۔ جب وہ یافامیں عزالدین القسام کی معیت میں اخوان کے شانہ بہ شانہ جنگ میں شریک تھے۔ اخوان کے بہت سے افراد اس معرکہ قتال میں شریک رہے جو ۱۹۴۸ئ؁ میں غزہ ، مغربی ساحل کے علاقہ میں، بیت لحم اور قدس میں ہوا اور اخوان کبھی بھی فلسطین کے میدانِ جنگ اور اس کے معرکوں سے الگ نہیں رہے۔ چنانچہ ۱۹۷۷ئ؁ میں اخوان فلسطین کے اندر بم دھماکوں میں شریک رہے اور ان کے متحرک اور فعال لوگوں کو سزائیں دی گئیں، قید کیا گیا، عبد اللہ نمر درویش اور برادر عبد المالک دہامشتہ ا نہیں لوگوں میں سے تھے جنہیں عسکری سرگرمیوں کی پاداش میں سات سال تک قیدی بنایا گیا۔

                البتہ پورے منطقہ میں ہم نے عسکری جدوجہد اس لئے تاخیر سے شروع کی کہ جن حالات میں ہم گھرے ہوئے تھے وہ اسکی اجازت نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ غزہ کے علاقہ میں ہمیں اسکی بھی اجازت نہیں تھی کہ ہم کوئی اسلامی کتاب رکھیں۔ میں ۱۹۸۵ئ؁ میں جیل گیا تو جیل کے منتظمین یہ باتیں کہتے اور ثابت کرتے تھے کہ ’’ہم نے تمہارے پاس ساحل سمندر پر فلاں دِن شیخ غزالی کی کتاب ’’خلق المسلم‘‘ دیکھی ہے؟ اس طرح کے الزامات سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جبر و قہر اور دباؤ کیسا اور کس حد تک تھا۔ کتاب ’’خلق المسلم‘‘ رکھنے کا مطلب اخوانی ہونا تھا۔ یہ تھے وہ سنگین اور سخت ترین حالات جن میں حکومتیں اور انتظامیہ ہمیں جلاوطن کرتی تھیں، صرف اس بنا پر کہ ہم اخوان ہیں، ایسے میں ہم کیسے پھیلتے اور قوت حاصل کرتے۔

س۔           کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تحریک کے اندر دو انداز پائے جاتے ہیں پہلے کی قیادت آپ فرمارہے ہیں اور دوسرے کی قیادت باہر سے کچھ سرگرم لوگ کر رہے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟

ج۔            ہم اسلامی افراد کے ذہنوں میں قیادت کا مسئلہ سب سے آخری مسئلہ ہے اور میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہر انداز کے اپنے حالات ہوتے ہیں اور ہر حصہ اپنے حالات کے مطابق ہی انجام پاتا ہے جہاں تک اہم فیصلوں کا تعلق ہے تو ان پر اتفاق پایا جاتا ہے اور اندر باہر ہر جگہ اس بابت پوری پوری Understandingہوتی ہے۔

س۔           کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الواقع تحریک تو ایک ہی ہے البتہ سرپرستیاں اور قیادتیں الگ الگ ہیں؟

ج۔            سرپرستیاں اور قیادتیں؟ سرپرستی تو بس اللہ کی، اسکے رسول کی اور اہل ایمان کی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

س۔           سرپرستیاں اور قیادتیں اس معنی میں کہ مختلف جگہوں پر لوگ اپنے یہاں کے مخصوص حالات کی رعایت کرتے ہیں؟

ج۔            یہ تو ایک فطری امر ہے کہ ہر شخص اس ماحول اور معاشرہ کی پوری رعایت کرتا ہے جس میں وہ موجود ہوتا ہے اسی ناطے کبھی کبھی انداز اور اسلوب میں فرق ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اردن میں اگر کوئی اپنے بیان میں ملکی سیاست پر تنقید کرتا ہے تو ایک مطلق بیان ہوتا ہے، اور جب داخلی انتظامیہ پر تنقید کرتا ہے تو لہجہ سخت ہو جاتا ہے کیوں کہ کسی مقابلہ کا ہوتا تو اس کی یہ تنقید ایذائ، جرم اور خیانت کے مترادف قرار پاتی۔ یہ ایسا دروازہ ہے جس میں ہم داخل نہیں ہونا چاہتے کہ آپسی خانہ جنگی شروع ہو جائے۔ میں جب شام میں تھا تو ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ آپ متضاد باتیں کہتے ہیں ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ آپ اوسلو معاہدہ کے خلاف ہیں اور دوسری طرف فلسطینی انتظامیہ کو اپنا بھائی بتاتے ہیں اور ابو عمار کو بھائی کہہ کر یاد کرتے ہیں تو آخریہ کیسا تضاد ہے حالاں کہ یہ لوگ خیانت کرہے ہیں اور آپ کے لئے ضروری ہے کہ انہیں بدعہد کہیں، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ آگ اگل رہے ہیں کیوں کہ آپ باہر ہیں، اور میں اگر اس طرح کی بات غزہ کے اندر کہہ دوں تو اگلے روز ہی خانہ جنگی پھوٹ پڑے کیوں کہ وہاں وہ لوگ بھی ہیں جو ابوعمارہ اور الفتح کی حمایت کرتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو حماس کے مؤید ہیں اور میں بالکل تیار نہیں کہ اس طرح کے فضول کاموں میں لگوں، میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ ان لوگوں نے اجتہاد کیا اور غلطی کی اور ان کی یہ اجتہادی غلطی مجھ پر عائد نہیں ہوتی۔

(ماخوذ رسالۃ الاخوان ،۵شوال ۱۵۱۹ھجری)

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *