بلاتبصرہ

پاکستانی ٹیم کی حمایت مہنگی پڑی
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کھیلے جانے والے کرکٹ میچ پر ایک مرتبہ پھر کشمیر کا تنازعہ غالب ہوتا نظر آیا۔ گزشتہ دنوں ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے دوران اترپردیش میں ایک یونیورسٹی کےذریعہ مبینہ طور پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حمایت کرنے پر 60کشمیری طلبہ کو معطل کر دیے جانے کی خبر آئی تھی۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق کشمیر سے تعلق رکھنے والے طالب علم اترپردیش کی سوامی وویکا نند سبھارتی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ گزشتہ اتوار کو ایشیا کپ کے ایک میچ میں پاکستان نے کانٹے کے مقابلہ میں روایتی حریف ہندوستان کو ایک وکٹ سے شکست دی تھی۔ اخبار کے مطابق میچ میں پاکستان کی جیت پر مبینہ طور پر کشمیری نوجوانوں نے جشن منایا اور دیگر ساتھی طلبا سے بحث کی۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کو معطل کرکے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کسی ناخواشگوار واقعہ کے پیش نظر ان طلبہ کو پولیس کی حفاظت میں درالحکومت منتقل کر دیا گیا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر منظور احمد کا کہنا تھا کہ معطلی کا فیصلہ ’احتیاطی تدابیر‘ کے طور پر کیا گیا۔ میچ کے بعد ملک کے خلاف اور پاکستان کے حق میں نعرے لگانے پر ان طالب علموں کے خلاف شدید غصے کا اظہار کیا جارہا تھا اوراس صورتحال میں جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو احتیاطی تدابیر کے طو رپر تین دنوں کے لیے معطل کیا گیا۔ انجینئرنگ کے طالب علم عرفان احمد نے بتایا کہ پاکستان کی حیت پر ہم نے تالیاں بجائیں تو مقامی طلبہ طیش میں آگئے اور ہال میں نقصان پہنچانا شروع کر دیا، گالم گلوج کی اور ہمیں تشدد کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی۔ منظور احمد نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے تین بسوں کا انتظام کیا اور لڑکوں کو دہلی کے مضافات میں غازی آباد بھیج دیا اور ا ن کے ساتھ یونیورسٹی کے تین اہلکار بھی روانہ کیے گئے ہیں۔ ‘ ان میں سے بعض طلبہ نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ انجینئرنگ کے طالب علم عرفان احمد نے بتایا کہ’ ’پاکستان کی جیت پر ہم نے تالیاں بجائیں تو مقامی طلبہ طیش میں آگئے اور ہال میں نقصان پہنچانا شروع کر دیا گالم گلوج کی اور ہمیں تشدد کا نشانہ بنانے کی دھمکی کی۔‘ معطل کیے جانے والے طلبہ میں سے بعض کے والدین نے بھی اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ا ن میں سے بعض نے کہا کہ ’چند طلبہ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا لیکن زیادہ تر معصوم ہیں، ہمارے خیال میں کالج نے کسی جھگڑے سے بچنے کے لیے ان کو بھیج کر اچھا قدم اٹھایا۔ (8/3/2014، روزنامہ راشٹریہ سہارا) واقعہ کے معاً بعد مقامی پولیس نے چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام خاطی طلبہ پر دیش دروہ کا مقدمہ قائم کردیا۔ بعد میں اپنی غلطی کا احساس کر مقدمہ واپس لےلیا گیا۔
پاگل ہو گئی مسلمانوں کی قاتل
احمد آباد 21فروری(ایجنسی)نروداپاٹیا میں بے قصور غریب مسلمانوں کو قتل کروانے کے ’انعام‘ کے طور پر نریندر مودی کابینہ میں وزارت پانے والی بھگوا گروہ کی سرغنہ مایاکوڈنانی کو اب ا پنی زندگی سے نفرت ہو گئی ہے؟ گجرات کی سابق وزیر اور نروداپاٹیا قتل عام کی مجرم مایاکوڈنانی کئی بار خودکشی کرنے کی کوشش کر چکی ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق مایا ڈپریشن میں ہیں اور ان کی شاک تھراپی شروع ہو چکی ہے۔ نریند مودی کی حکومت میں متعدد بار وزیر رہ چکی مایاکوڈنانی کو گجرات میں ہوئے 2002کے فرقہ وارانہ فسادات کے سب سے خوفناک واقعات میں سے ایک نروداپاٹیا قتل عام میں مجرم قرار دیا جاچکا ہے۔ احمدآبادمیں ایک سرکاری اسپتال میں ڈپریشن سے متعلق ایک ڈس آرڈر کے سبب انہیں الیکٹرک شاک دیے جا رہے ہیں۔60سالہ سابق اطفال بہبود کی وزیر مایا کوڈنانی کو اگست2012میں 28سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس پر احمد آباد میں اس بھیڑ کی قیادت کرنے کا جرم ثابت ہواتھا جس نے احمد آباد کے نروداپاٹیا میں 97مسلمانوں کا قتل کر دیا تھا۔ احمدآباد کے سول ہاسپٹل کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے معاملہ میں الیکٹرک شاک آخری اسٹیج پر دیا جاتا ہے۔ مایاکوڈنانی کی نگرانی کر رہے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مایا کئی بار خودکشی کی کوشش کر چکی ہیں اور ان پر ادویات کا بھی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ احمد آباد کے سرکاری اسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ الیکٹرو۔۔۔اسی سی ٹی کوڈپریشن کے معاملات لگے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان پر خودکشی کا رجحان پنپ رہا ہے۔ انہیں نیند میں الیکٹرک شاک دیے جارہے ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق ای سی ٹی۔۔۔ نفسیات سے متعلق علاج ہے۔ اس علاج کے تحت مریض کو الیکٹرک سوئیاں چبھوئی جاتی ہیں۔ مایاکوڈنانی گزشتہ ایک ہفتہ سے اسپتال میں ہے۔ اسے نومبر میں صحت بنیاد پر تین ماہ کی ضمانت ملی تھی۔ حال ہی میں گجرات ہائی کورٹ نے مایا کی اس درخواست کو خارج کر دیا تھا جس میں اس نے چھ ماہ کی ضمانت اور بڑھانے کی کوشش کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے راحت دیتے ہوئے اس کی ضمانت کو ایک ہفتہ کے لیے بڑھا دیا تھا۔ ان کی ضمانت آئندہ پیر کو ختم ہو رہی ہے۔ غور طلب ہے مایا کوڈنانی کو گجرات کے وزیر اعلی اور بی جے پی وزیر اعظم عہدے کے امیدوار مودی کا قریبی سمجھا جاتا تھا۔
(22/2/14،صحافت)
امریکہ میں مسلمانوں کی جاسوسی آئین کاحصہ، امریکی عدالت کا فیصلہ
ٹرے۔۔۔(ایجنسی) مسلمانوں کے خلاف امریکی دشمنی کی ایک اور مثال سامنے آگئی جس میں امریکی جج نے فیلصہ دیا ہے کہ مسلمانوں کی جاسوسی امریکہ کے آئین کا حصہ ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ نے اسلام کے خلاف تعصب کا ایک اور ثبوت دے دیا ہے۔ نیوجرسی میں رہنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے پولیس کی جانب سے بے بنیاد نگرانی کے خلاف عدالت میں درخواست دے رکھی تھی جہاں ڈسٹرکٹ جج ولیم مارٹینی نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مسلمانوں کی جاسوسی کو آئین کے مطابق قرار دیا ہے۔ جج نے کہا ہے کہ مسلمانوں کی جاسوسی انسدادِ دہشت گردی کے پروگرام کی روشنی اور ملکی مفاد میں کی جاتی ہے،نیوجرسی کے مسلمان عدالتی فیصلہ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مساجد، دینی مدارس، کاروباری مراکز اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی کڑی نگرانی سے ان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔
(22فروری 2014،انقلاب)
مسلمان قرآن کے بعض حصوں سے لا تعلقی ظاہر کیں۔ برطانوی سیاسی رہنما
مغربی ممالک نے مساجد کی اجازت دے کر سنگین غلطی کی ہے۔
لندن5فروری:(آ:ی ایبن ایس انڈیا) برطانوی سیاسی جماعت ہو کے انڈیپنڈنٹ پارٹی نے برطانیہ میں مقیم مسلمانوں سے اپنا یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ وہ قرآن پاک کے بعض ح صوں سے اظہار لا تعلقی کریں۔ برطانوی سیاسی جماعت کے اعلان پر دستخط کرنے کے لیے بھی کہ اہے۔ گیرارڈ بیٹن نے اس سے پہلے یہ مطالبہ 2006میںکیا تھا، جسے اس نے اب پھر دہرایا ہے۔ گیرارڈبیٹن کے مطابق مغربی ممالک نے مسلمانوں کو اپنے یہاں مساجد تعمیر کرنے کی اجازت دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس اجازت کے نتیجے میں پورے مغربی کی سرزمین پر مساجد پھیل گئی ہیں۔ اس کا کہنا ہے ’اگر یہ لوگ جدید خیالات کے حامل لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں تو اس میں کچھ غلطی ہے جس پر نظر ثانی ضروری ہے۔‘ گیرارڈ بیٹن نے مزید کہا ’اگر وہ ان ایشوز پر اپنی رائے بدلنے کو تیار نہیں ہیں تو سوچنا یہ ہے کہ اس سے مسئلہ کس کے لیے ہوگا۔ ہمارے لیے یا ان کے لیے؟ ‘اس نے کہا’مسلمانوں کو جہد سے متعلقہ قرآنی حصوں سے اپنے آپ کو الگ کرنا ہوگا اور یہ کہنا چاہیے کہ یہ ناقابل عمل، غلط اور غیر اسلامی ہے۔ گیرارڈ بیٹن کے ان خیالات کی لیبر پارٹی کے صادق خان نے مذمت کی ہے اور کہا ہے ’میں گیرارڈ بیٹن کے خیالات سے دہشت زدہ ہوا ہوں کہ وہ میرے اور میرے جیسے لاکھوں مسلمانوں کے عقیدے سے لاعلم ہے۔ ‘برطانیہ کے کنزرویٹو پارٹی کے رحمن چشتی نے بھی گیرارڈبیٹن ے ان خیالات پرتبصرہ کرتے ہوئے کہ اہے کہ ’بیٹن کو کسی ذمہ داری پر نہیں ہونا چاہیے۔‘ واضح رہے 2010میں بیٹن نے گارجین کو دیے گئے ایک ویڈو انٹرویو میں مساجد کی تعمیر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ (ہمارا سماج)

You may also like

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *